Friday 1 December 2017

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا فلسفہ




آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا فلسفہ
تحریر فرمودہ : حضرت مولانا غلام رسول راجیکی ؓ

درود شریف کی اہمیت اور عظمت اسی سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نماز کا فریضہ جسے ہر ایک مسلم کے لئے طرّۂ امتیاز قرار دیا گیا ہے اور جس کی ادائیگی ہر مومن کے لئے ایسی ہی ضروری قرار دی گئی ہے جیسے قیامِ زندگی کے لئے غذا اور دفعِ علالت کے لئے علاج اور دوا۔ درود شریف کو اس دائمی اور ابدی عظیم الشان عبادت کا جزو قرار دیا گیا ہے اور جس طرح نماز کے لئے قرآن کریم اور احادیثِ نبویّہ میں لفظ صلوٰۃ استعمال ہوا ہے اسی طرح یہی لفظ درود شریف کے لئے رکھا گیا ہے۔ جس سے یہ امرقرینِ قیاس اور صحیح الامکان معلوم ہوتا ہے کہ نماز کا نام صلوٰۃ نماز کے اسی جزو کی بناء پر رکھا گیا ہے جیسے بعض سورِ قرآنیہ کے اسماء ان کے بعض اجزاء کے نام پر رکھ دیئے گئے ہیں۔ علاوہ اس کے درود شریف کا نماز کے ہم اسم ہونے کی صورت میں پایا جانا اس کی اہمیت اور فضیلت کو جس اجلٰی شان کے ساتھ ظاہر کر رہا ہے۔ وہ مخفی نہیں۔

فضیلتِ درود

درود شریف بہترین حسنات کے ذخائر اور خزائن میں سے ہے اور اس سے بڑھ کر درود شریف کا پڑھنا اور کیا موجبِ حسنات ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اسے اپنا اور اپنے ملائکہ کا فعل قرار دیا ہے جس سے درود شریف پڑھنے والا مومن خداتعالیٰ اور ملائکہ کا شریکِ فعل ہو جاتا ہے گو یہ دوسری بات ہے کہ ہر ایک کے درود شریف کی نوعیّت جداگانہ ہے۔ درود شریف چونکہ مومنوں کاوصف ہے اس لئے درود شریف علامتِ ایمان اور اﷲ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بھی ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص مجھ پر ایک دفعہ درود پڑھے تو خدا تعالیٰ اس پر دس دفعہ رحمت نازل فرماتا ہے یہ بشارت دراصل آیت قرآنی مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِھَا کے ماتحت ہے کہ ایک نیکی کی جزا کم از کم دس گنا زیادہ ملتی ہے لیکن عرفان اور نیت کی وسعت سے جزا کا دائرہ اور بھی وسیع ہو جاتا ہے۔

درود شریف کا ماحصل

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا مطلب وہی ہے جو لفظ صلوٰۃ اور سلام سے ظاہر ہے۔ صلوٰۃ کا لفظ اﷲ تعالیٰ کی صفت حمید و مجید کے لحاظ سے جو درود شریف میں دعائے صلوٰۃ کی مناسبت سے لائی گئی ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے حمد اور حُسن ثناء اور آپ کی عظمت اورمجد کے لئے درخواست کرنے کے معنوں میں ہے۔ اُوْلٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰاتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ کے ارشاد باری میں صلوات کے معنے حسنِ ثناء بھی ہیں یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کے متعلق ثناء اور تعریف کا اظہار ہوتا ہے۔اسی طرح آیت ھُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ وَ مَلٰٓئِکَتُہٗ لِیُخْرِجَکُمْ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ کے ارشاد سے ظاہر ہوتا ہے کہ صلوٰۃ سے مراد ایسی رحمت بھی ہے کہ جس کے ذریعہ انسانوں کو انواع و اقسام کی تاریکیوں سے نور کی طرف نکالا جاتا ہے ان معانی کے لحاظ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا مفہوم اور مطلب یہ ہو گا کہ سب مومن صَلُّوْا عَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْماًکے ارشاد کی تعمیل میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق مخالفین اور کافرین کی مذمتوں اور غلط بیانیوں کے مقابل حسنِ ثناء اور مدح اور تعریف کی اشاعت کریں کیونکہ کافر اورمخالف لوگ اپنے بُرے پراپیگنڈے سے ظلمات اور تاریکی کے پردے حائل کرنا چاہتے ہیں تا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صداقت او رآپ کی نبوّت و رسالت کی اصلی اور خوبصورت شان کو دیکھ کر لوگ مسلمان نہ ہوجائیں۔ اس لئے اﷲ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جہاں مخالف لوگ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صداقت پر تاریکی کے پردے ڈال کر آپؐ کی اصل حقیقت کو چھپانا چاہیں تم مومن لوگ ان کے اعتراضات کی تردید اور ان کے غلط خیالات کا ازالہ کرتے ہوئے وہ سب تاریکی کے پردے ہٹا دو اور دنیا کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اصل حال اور حقیقی نورِ صداقت سے آگاہ کر دو۔ تا ایک طرف تمہارے اس صلوٰۃ اور سلام سے آپؐ مخالفوں کی پیداکردہ تاریکیوں سے باہر آ جائیں اور دوسری طرف محقق اور طالبانِ حق آپؐ کی اصل اور پُرحقیقت شان سے آگاہ ہو کر اس حق کو قبول کر کے نورحاصل کر لیں۔

صلوٰۃ اور سلام کی چار قسمیں

غرض مومنوں کا صلوٰۃ اور سلام چار رنگوں کا ہو سکتا ہے اول یہ کہ وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دشمنوں اور مخالفوں کے تاریک اور پرمذمت پراپیگنڈہ کی تردید اور اس کا کما حقہ ازالہ کریں اور بتائیں کہ آپؐ مذمّم نہیں بلکہ محمد ہیں اور آپؐ کاذب اور مفتری نہیں بلکہ خدا کے سچے نبی ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ امام مہدی کے اصحاب ہر مجلس میں مہدی کا ذکر کثرت کے ساتھ کیا کریں گے اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ مہدی کے مخالفوں کی طرف سے چونکہ جابجا مخالفانہ ذکر ہوں گے اس لئے اصحابِ مہدی بطور ذبّ کے تردید کریں گے اور تبلیغ کی غرض سے مہدی کا ذکر بکثرت وقوع میں آئے گا۔
دوسرے یہ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم اور آپ کے خلقِ عظیم کے سچے وارث بن کر پاک نمونہ اور پاک اخلاق کے ساتھ دنیا کو دکھائیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا وہ نمونہ نہ تھا جو مخالف اور آپؐ کے دشمن پیش کرتے ہیں بلکہ آپ کا نمونہ اور خلق وہ ہے جو مومنین کی پاک جماعت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پاک تعلیم کو اپنے پاک نمونہ اور پاک اعمال سے ظاہر کر رہی ہے اور اس طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا جلوۂ صداقت جو مومنین کے پاک نمونہ کے ذریعہ ظہور میں آئے گا، مخالفوں کو تاریکیٔ شبہات سے باہر نکالے گا۔
تیسرے یہ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پاک تعلیم کی اشاعت اور اسلام کی تبلیغ کے لئے دنیا کی ہر قوم کو دعوت دے کر آپؐ کے محامد اور محاسن سے انہیں آگاہ کرتے ہوئے لوگوں کے آگے سے تاریکی جہالت کے پردوں کو اٹھایا جائے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے نورِ صداقت کا ہر وقت اور ہرجگہ جلوۂ حقیقت ظاہر کیا جائے۔
چوتھے یہ کہ اﷲ تعالیٰ کی جناب میں بکمال تضرُّع و خشوع اور بکمال ارادت و صدق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لئے دعائیں کی جائیں تاکہ تاریکی کے سب پردے اٹھا دیئے جائیں اور ہر ایک انسان آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے نمونہ کا مظہر ہو کر آپ ؐ کی قوت قدسیہ کا جلوہ دنیا کو دکھائے اور تا ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی وہ نسل جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاک نمونہ سے منحرف ہو کر جہنمی زندگی کے اتھاہ گڑھے میں گر پڑی ہے دوبارہ آپؐ کی اتباع سے آدم کی طرح مسجودِ ملائکہ بننے کی مستحق ٹھہرے پس یہ صلوٰۃ او رسلام جو چار رنگوں کا ہے اگر مومن اس کی تعمیل کریں تو یہ انہیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے انصار میں سے بنا دیتا ہے اور باوجود بُعدِ زمانی اور مکانی کے ایسا مومن جو صلوٰۃ اور سلام کے مذکورہ کوائف سے اپنا درود شریف پیش کرتا ہے لاریب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا سچا اور کامل ناصر اور جماعتِ انصار میں اپنی خاص شان کا انصاری ہوتا ہے۔

درود شریف سے صفاتِ الٰہیہ کا ظہور 

اﷲ تعالیٰ کا قرآن کریم میں ارشاد ہے وَسَلَامٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ اس سے پہلے آتا ہے سُبْحَانَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوْنَ۔ ان دو آیتوں کا یہ مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ کے مرسلوں کو معصوم تسلیم کرنا، ہر عیب اور ہر نقص سے پاک اور سلامتی کے ساتھ ماننا ہی اس بات کی دلیل اور علامت ہے کہ سب کی سب اور کامل حمد اﷲ تعالیٰ کے لئے ہے جس کی حمد کی یہ شان ہے کہ وہ سب عالموں کی ربوبیت کا فیضان ہروقت ناز ل فرما رہا ہے اور جس کی ربوبیت کے ماتحت خدا کے مرسلوں کی بعث ظہورمیں آئی اور بالآخر محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جیسے عظیم الشان مرسل کو تمام دنیا کی قوموں اور سب عالموں کی ربوبیت کے لئے مبعوث فرمایا۔ تاخدا تعالیٰ کی حمد کے اظہار کے علاوہ دہریوں اور مشرکوں پر یہ ثابت کرے کہ تیرا رب جس نے اے رسول تجھے مبعوث فرمایا بہت بڑی عزت والا ہے اور ان سب نقائص اور عیوب سے منزہ ہے جن کو اس قدوس اور سبّوح ذات کی طرف جاہل مشرک اور دہریہ لوگ منسوب کرتے ہیں۔
پس صَلُّوْا عَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا کے ارشاد میں صلوٰۃ کے علاوہ سلام بھیجنے کی غرض انہی معنوں میں ہے جیسا کہ اوپر بیان کر دیا گیا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھنے کے لئے جو الفاظ مسنونہ صلوٰۃ کے ہیں ان میں اﷲ تعالیٰ کی صفت حمید اور مجید کو پیش کیا گیا جس کا یہ مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ کی حمد اور مجد کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مرسل ہونے کی حیثیت اور آپ کی صداقت کے ظہور کے ساتھ خاص طور پر تعلق ہے۔

آنحضرت ؐ کے اغراض و مقاصد 

درود شریف کو جب دعا کے طور پر پڑھا جائے تو چاہیئے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اغراض ومقاصد کو ملحوظ رکھ کر ان کی تکمیل کے لئے دعا کی جائے۔ آپ کے اغراض و مقاصد تین طرح پر ہیں ایک خالق کے متعلق دوسرے مخلوق کے متعلق تیسرے نفس کے متعلق۔ خالق کے متعلق آپ کا مقصد یہ ہے کہ اِعلاءِ کلمۃ اﷲ اور تعظیم لامر اﷲ کی شان دنیا میں ظاہر ہو۔ مخلوق کے متعلق یہ کہ ہر انسان خد ا تعالیٰ کی توحید کو اعتقادی اور عملی صورت میں پانے والا ہو جائے اور حق اﷲ اور حق العباد کی امانت کو ادا کرنے والا اور تعظیم لامر اﷲ اور شفقت علیٰ خلق اﷲ کے فرائض کی ادائیگی کے لئے کامل نمونہ ہو۔ خدا کے قرب اور وصل سے جنت کا وارث اور جہنمی زندگی سے نجات پانے والا بنے۔ ذاتی مقصد یہ ہے کہ اِنَّ صَلَا تِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ کے مطابق آپؐ خدا تعالیٰ کے عرفان اور قرب و وصل کے مدارج میں جس قد ربھی پیش از پیش ترقی کے خواہشمند ہیں ان مدارج میں آپؐ کو ہر لمحہ ترقی حاصل ہوتی رہے چنانچہ وَ لَلْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلیٰ میں اس امر کی بشارت دی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ترقی غیر متناہی مدارج کی شان رکھتی ہے۔

صلوٰۃ نسک حیات و ممات 

آیت کریمہ اِنَّ صَلَا تِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صلوٰۃ کو مقامِ استفاضہ پر اور حیات کے بالمقابل رکھا ہے اور نُسُکی یعنی آپ کی قربانی کو مقام افاضہ پر اور ممات کے بالمقابل پیش کیا ہے۔ اس سے آپ کی زندگی کا اعلیٰ مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ ایک طرف اﷲ تعالیٰ سے استفاضہ کا لامتناہی سلسلہ علی الدّوام جاری ہے اور دوسری طرف آپ کی طرف سے خلق خدا کے لئے افاضہ کا غیر متناہی اور ابدی سلسلہ چلتا رہے اسی مقصد کو فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ کے الفاظ میں بھی پیش کیا گیا ہے یعنی فَصَلِّ سے استفاضہ کر اور اَنْحَرْ سے قربانی کا سلسلہ جاری رکھ جو تیری طرف سے خلق کے لئے افاضہ کی حیثیت میں ہے اس کے نتیجہ میں کوثر تجھے عطا ہو گا۔یعنی ہر طرح کے انعامات اور برکات کی وہ کثرت جو غیر متناہی اور گنتی و شمار کی حدود سے باہر ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی قربانی کو لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّایَکُوْنُوْا مُؤمِنِیْنَ اور عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ کے الفاظ میں بھی ذکر کیا ہے کہ دوسری مخلوق کے متعلق آپؐ کی ہمدردی اور شفقت تو درکنار کافروں تک کے لئے جو آپ کے جانی دشمن تھے آپؐ کی ہمدردی اور قربانی کا یہ حال تھا کہ خدا تعالیٰ جو خالقِ فطرت اور عالمِ سرّ و علن ہے شہادت دیتا ہے کہ آپ کافروں اور دشمنوں کی ہمدردی سے اس قدر گداز ہو رہے تھے کہ اپنی جان کو بوجہ شفقت اور مجاہداتِ شاقّہ کے ہلاکت میں ڈالے ہوئے تھے۔ پس آ نحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ان شفقتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور آپؐ کی محسنانہ اور کریمانہ عنائتوں اور مہربانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آپؐ پر درود شریف پڑھتے وقت آپؐ کے مقاصد کی تکمیل کے لئے دعائیں کرنا چاہیئے۔

اللہ تعالیٰ اور ملائکہ کا درود

اﷲ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ کا درود مومنوں سے الگ حیثیت رکھتا ہے اور وہ یہ کہ اﷲ تعالیٰ اور ملائکہ کا درود صفتِ رحمانیت کے افاضہ کے رنگ میں بلا محنت بلاکسی معاوضہ و مبادلہ کے پیش ہوتا ہے لیکن مومنوں کا درود ایک دعا اور روحانی مجاہدہ اور کوشش ہے جس کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور معاوضہ صفتِ رحیمیّت کے افاضہ کے ماتحت فیضان نازل ہوتا ہے اس طرح سے آنحضرت صلعم کو صفت رحمانیت اور صفت رحیمیّت دونوں قسموں کے فیضان کامورد بنایا جاتا ہے ہاں یہ دوسری بات ہے کہ مومن اپنی نیت اور عرفانی وسعت سے اپنے درود میں اﷲ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ کے درود بلکہ جمع انبیاء و مومنین کے برکاتِ دعا اور انعامات و دعوات کو بھی شامل کر کے دعا کرے اور اس طرح کی دعا کے وسیع دائرہ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے استفاضہ کے دائرہ کو وسعت دے اور اپنے درود میں صفت رحمانیت اور رحیمیت کے فیوض کو جمع کر کے جامع حیثیت میں پیش کرے۔

النّبی اور آل کا لفظ 

صَلُّوْا عَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا کے ارشاد میں صرف النّبیکا لفظ لایا گیا حالانکہ درود شریف میں آل کا لفظ پیش کیا گیاہے یہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے البنی کی تشریح لفظِ محمد اور آلِ محمد سے فرمائی ہے اور اس لئے کہ نبوّت کے لحاظ سے اگرچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم قیامت تک کے لئے نبی تھے لیکن شخصی حیثیت سے جب آپ تریسٹھ سال کی عمر تک پہنچ کر دنیا سے رحلت فرما گئے تو شخصی وجود کی عدم موجودگی میں آپ کی قائم مقامی میں آلِ محمدؐ ہی کام کر سکتی تھی اور آلِ محمدؐ سے مراد آپ کی امت کے صدیق ،شہید، صالح اور خصوصاً امت کے مجدّدین جو علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل کے مصداق ہیں اور خلفائے راشدین مہدیین ہیں او رچونکہ نبی بغیر امت کے نہیں ہو سکتا اس لئے النبی کے لفظ کے بطن میں جب امت داخل ہے تو آلِ محمد جو نبی کے سچے وارث اور اس کی امانت کے سچے حامل ہیں کیوں داخل نہ ہوں اور جب النبی اپنے اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لئے امت کے انصار کی دعا اور درود شریف کی نصرت کا مقتضی ہے تو آل نبی اور آل محمد جو محمد رسول اﷲ کے اغراض و مقاصد کی تکمیل کی غرض سے ہی حاملِ امانت کی حیثیت میں کام کرنے والے ہیں ان کو کیوں اس درود شریف میں شامل کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ پس آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا النبی کے لفظ کی تشریح اور توضیح میں درود شریف میں محمد اور آلِ محمدؐ کے الفاظ کو پیش کرنا عین حکمت اور ضرورت کے اقتضاء کے ماتحت ہے اور تفسیر کے لحاظ سے نہایت ہی صحیح اور بہترین تفسیر لفظ النبی کی فرمائی گئی ہے۔

ایک سوال کا جواب 

ہاں یہ امر کہ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ الخ کے الفاظ پڑھنے کی ضرورت کیوں اور کہاں سے پیداکی گئی۔ سو اس کے جواب میں یہ عرض ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعافرمائی تھی رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَا اُمّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ اور ساتھ ہی یہ دعا کی تھی کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَ یُزَکِّیْھِمْ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اے خدا جیسے ہم دونوں یعنی ابراہیم اور اسمٰعیل(علیہما السلام) تیرے خادم اور دینِ حنیف کی اشاعت و حمایت کرنے والے ہیں۔ اسی طرح اس دین کی خدمت اور اشاعت کے لئے ہماری ہی اولاد اور ذریّت سے ایک امت مسلمہ بنانا اور اس میں ایک ایسا رسول بھی مبعوث فرمانا جو تیری آیات ان پر تلاوت کرے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کو اعتقادی اور عملی اور حالات کے لحاظ سے پاک کرے۔
یہ وہ دعا ہے جس کے اثر اور نتیجہ کے ماتحت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت ظہور میں آئی اور اسی کے ماتحت آپ کی امت جو امت ِ مسلمہ ہے ظہور پذیر ہوئی۔ پس حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا سے آپؐ کو یہ برکت ملی کہ آپؐ کے برکات کا سلسلہ اور آپ کی ذریّت اور اولاد کی برکات کا سلسلہ علی الدّوام قیامت تک کے لئے لمبا کیا گیا۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق دوسرے مقام میں بھی اس بات کا بطور برکت ذکر فرمایا۔ کہ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا قَالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ قَالَ لَا یَنَالُ عَھْدِیْ الظَّلِمِیْنَ اس دعا کی رو سے جب تک حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذریّت اور نسل دنیا میں رہے گی امامت اور نبوت کا انعام آپ کی صالح اولاد میں جاری رہے گا اور چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذریّت کا سلسلہ قیامت تک قائم رہنے والا ہے۔ لہذا سلسلہ برکاتِ امامت و نبوت بھی قیامت تک جاری رہنے والا ہے ہاں اس انعام کی محرومی کے لئے صرف ظالمین کو مستثنےٰ کیا ہے۔ لیکن اس استثناء سے یہ لازم نہیں آتا کہ ایک غیر ظالم ذریّت بھی اس انعام سے ابد تک محروم رکھی جائے۔
ان دونوں آیات سے ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے اثر اور نتیجہ میں آپ کی نسل دو سلسلوں میں چلی اور دونوں کو انعامات امامت اور برکات نبوت سے مستفیض فرمایا گیا۔ ایک سلسلہ حضرت اسحٰق علیہ السلام سے شروع ہو کر حضرت مسیح پر ختم ہوا اور دوسرا حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے شروع ہو کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تک پہنچا۔ 
پس آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا درود شریف کے الفاظ میں ابراہیم اور آلِ ابراہیم کے صلوات اور برکات کے لئے دعائیہ الفاظ پیش کرنا اپنے لئے اور اپنی امت کے لئے انہی برکات کے سلسلہ کی غرض سے ہے۔

درود شریف کے پاک اثرات 

امت کی یہ دعا جو درود شریف کے الفاظ میں پیش کی گئی ہے اور جو خدا تعالیٰ کے امر اور ارشاد کے ماتحت مانگی جاتی ہے ایک قبول شدہ دعا ہے۔ اس کی قبولیت کے متعلق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بشارت بھی دی گئی۔ اسی بشارت کے ماتحت آپ نے فرمایا عُلَمَاءُ اُمتی کَاَنبِیَآءِ بنی اسرائیل اور فرمایا یُوْشِکُ اَنْ یَّنْزِلَ فِیْکُمْ ابْنُ مَرْیَمَ حَکْمًا عَدَلًا وَ اِمَامًا مَھْدِیًّا یعنی میری امت کے علماء مجددّین جو اسرائیلی انبیاء کی طرح مخصوص القوم اور مخصوص الزمان حیثیت سے مبعوث ہوں گے، وہ اسرائیلی انبیاء کے نمونہ پر ہو ں گے اور یہ برکت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سلسلہ نسل کے لحاظ سے اس نمونہ پر عطا ہو گی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اسحاقی سلسلہ کے ذریعہ عطا کی گئی اور مسیح موعود کی برکت جو امام مہدی ہو کر آنے والے ہیں اور جن کی بعثت دنیا کی سب قوموں اور قیامت تک کے لئے ہو گی، وہ ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سلسلۂِ نسل کے لحاظ سے اس نمونہ پر عطا ہو گی۔ جو حضرت ابراہیم کو اسمٰعیلی سلسلہ اور آنحضرت ؐ کے وجودِ باجود کے ظہور سے ملی۔ سو خدا کے فضل سے آج اس زمانہ تک امت کی دعا اور درود کے پاک اثرات ظہور میں آ چکے اور ایک طرف تیرھویں صدی تک ہر صدی کے سر پر مجددّین کی بعثت سے عُلَمَاءُ امتی کَاَنبِیَآءِ بنی اسرائیل کے رو سے اسحاقی سلسلہ کی برکت کا نمونہ ظاہر ہو گیا اور دوسری طرف اس چودھویں صدی کے سر پر سیدنا حضرت مسیح موعودو امام مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت سے وہ دوسری بات بھی ظاہر ہو گئی جو اسمٰعیلی سلسلہ کی برکت کے نمونہ پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت سے ظہور میں آئی اور جس طرح آپ کی بعثت اسرائیلی انبیاء کے بعد ظہورمیں آئی اور شان میں بھی اسرائیلی انبیاء کی برکات سے بڑھ چڑھ کر ظہور میں آئی۔ اسی طرح تیرھویں صدی تک کے مجددین جو اسرائیلی انبیاء کے نمونہ پر آئے ان سے مسیح موعود علیہ السلام بوجہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مظہرِ اکمل اور بروزِ اتم ہونے کے پہلے کے سب مجددین سے افضل شان کے ساتھ ظہور فرما ہوئے اور جس طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں خاتم الانبیاء ہونے کی خصوصیت ہے اسی طرح آپ میں خاتم الاولیاء ہونے کی خصوصیت پائی جاتی ہے۔ پس آج اس زمانہ میں اہلِ اسلام کے لئے بے حد مسرت اور خوشی کا موقع ہے کہ ان کا درودشریف پڑھنا بابرکت ثمرات اور مبارک نتائج کے ساتھ ظہور پذیر ہوا۔

رسول کریم کی نبوت کے برکات

اگرچہ صدیقیت شہدیت اور صالحیت کے مدارج کے لوگ بھی امت میں پیدا ہوئے لیکن النبی کے لفظ میں جو یصلّون علی النبی کے ارشاد میں ہے اس بات کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی صدیقیت۔ شہیدیت۔ صالحیت اور اپنی مومنانہ شان کا جلوہ دکھاتے ہوئے جہاں بہت سے صدیق شہید صالح اور مومن پیدا کئے۔ وہاں نبی بھی آپ کی اتباع سے آپ کی امت میں پیدا ہونے والے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آلِ محمد کو النبی کے لفظ میں داخل کر کے کمالاتِ نبوت میں بھی ظلی طور پر شامل ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا۔

درود شریف اور حضرت مسیح موعودؑ

درود شریف جس کے الفاظ نماز میں پڑھے جاتے ہیں ان پر غور کرنے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آنے والے مسیح موعود محمدی ہیں نہ کہ اسرائیلی اور وہ اس طرح کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے لئے دعا یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آلِ ابراہیمؑ کے برکات آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور آلِ محمد کو عطا ہوں او رچونکہ مسیح اسرائیلی بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے اور اسرائیلی نبیوں میں سے ہیں اور آلِ ابراہیم میں سے ، اس لئے درود شریف کی دعا سے یہ مطلب ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو حضرت ابراہیمؑ اور آپؑ کی آل کی طرح ایک مسیح بھی دیا جائے۔ گویا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو پہلے مسیح کی طرح کا ایک اور مسیح دیا جانا ہے نہ یہ کہ وہی پہلا مسیح آپ کو دیا جانا ہے اگر پہلا مسیح آئے تو پھر کَمَا کا حرفِ تشبیہہ جو پہلے مسیح کے مشبّہ کو چاہتا ہے نہ کہ پہلے مسیح کے عین کو وہ اپنے مفاد کے لحاظ سے باطل ٹھہرتا ہے کیونکہ مشبّہ اور مشبّہ بہ کے درمیان مغائرت کا پایا جانا ضروری ہے ورنہ تشبیہ کا فائدہ ہی کیا پس حرف کما نے اپنے مفاد سے یہ ظاہر کر دیا کہ آنے والا مسیح موعود پہلا مسیح اور اسرائیلی مسیح نہیں بلکہ اس کا مثیل ایک دوسرا مسیح ہے جو مسیح محمدی اور امت محمدیہ کا ایک فرد ہے جیسا کہ حدیث اِمَامُکُمْ مِنْکُم اور حدیث حُلْیَتَیْن اور آیتِ استخلاف یعنی وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِیْ الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ کے لفظ مِنْکُمْ اور کَمَا میں بھی اسی طرح اشارہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نیابت اور خلافت کے لئے جو شخص متعین ہو گا وہ امت محمدیہ کا فرد ہو گا۔اس صورت میں مسیح اسرائیلی جو قرآن اور حدیث اور واقعاتِ تاریخیہ کی رو سے فوت شدہ ثابت ہیں اگر انہیں زندہ تسلیم کر لیا جائے تو بھی وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفہ نہیں بن سکتے اس لئے کہ قرآن، حدیث اور درود شریف کے الفاظ منکم اور کما اس امر کے لئے مانع ہیں کہ ایسا مسیح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا خلیفہ بنے جو آپ کی امت سے نہ ہو۔

مسیح موعودؑ میں شانِ محمدیّت کا جلوہ 

درود شریف کے الفاظ پر غور کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آلِ ابراہیم کی سب برکات کا مورد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آلِ محمد کو بنایا جانا ان معنوں میں ہے کہ آپؐ آدم سے لے کر مسیح تک سب انبیاء کے کمالات اور برکات کے مورد بنائے گئے۔ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا وہ کشف جس میں آپ نے بیت المقدس میں سب انبیاء کی امامت میں نماز ادا کی اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی اتباع سے سب انبیاء کے کمالات منفرداً اور مجموعاً حاصل ہو سکتے ہیں۔
چنانچہ عُلَمَاءُ اُمّتی کَاَنبِیَآءِ بنی اسرآئیل کے ارشاد کے رو سے آپؐ کی امت کے مجددّین میں سے ہر ایک مجدد کسی نہ کسی نبی کے کمالات کا وارث ہوا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو مجددِ اعظم ہیں جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء کی شان کے ساتھ سب انبیاء کے کمالات کے مجموعی طور پر وارث بنائے گئے بلکہ اس لحاظ سے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بھی آلِ ابراہیمؑ سے ہیں۔ مسیح موعود آلِ محمدؐ میں سے ہونے کی وجہ سے کما صَلَّیتْاور کما بارکتَ علیٰ ابراھیم و علیٰ اٰل ابراھیم کے الفاظ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے کمالات او ربرکات کے بھی ظلی طور پر کامل وارث ہوئے۔
درود شریف کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کی وحی
حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جو وحی درود شریف کے متعلق نازل ہوئی وہ یہ ہے صلّ علیٰ محمد و اٰلِ محمد الصّلوٰۃ ھوالمربّی انی رَافعکَ الیّ والقیتُ علیکَ محبۃً مِنّیْ یعنی محمد اور آل محمد پر درود بھیج۔ درود ہی تربیت کرکے ترقی اور کمال بخشنے والا ہے میں تجھے بلند کروں گا۔ میں اپنی طرف سے تجھے محبت کا خلعت پہناؤں گا۔ حضرت مسیح موعود نے یہ ترجمہ خود فرمایا۔ اور اس کے ساتھ ہی فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر درود بھیجنے سے انسان عیسیٰ بلکہ موسیٰ کا مقام پا سکتا ہے۔ جس کا ثبوت میں تیرے وجود کو پاک بناؤں گا۔ پھر حقیقۃ الوحی کے ص ۱۲۸ پر فرماتے ہیں:۔
’’ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہو ا کہ درود شریف کے پڑھنے میں یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر درود بھیجنے میں ایک زمانہ تک مجھے بہت استغراق رہا کیونکہ میرا یقین تھا کہ خدا تعالیٰ کی راہیں نہایت دقیق راہیں ہیں۔ وہ بجز وسیلہ نبی کریمؐ کے مل نہیں سکتیں جیسا کہ خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ (اس کی طرف وسیلہ طلب کرو)تب ایک مدت کے بعد کشفی حالت میں میں نے دیکھا کہ دو سقّے یعنی ماشکی آئے اور ایک اندرونی راستے سے اور ایک بیرونی راہ سے میرے گھر میں داخل ہوئے ہیں اور ان کے کاندھوں پر نور کی مشکیں ہیں اور کہتے ہیں ھٰذَا بِمَا صَلّیْتَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ (یعنی یہ اس کی وجہ سے ہے جو تم نے محمدؐ پر درود بھیجا ہے)‘‘

درود شریف کے برکات 

درود شریف پڑھنے کے بہت سے فوائد ہیں منجملہ دیگر فوائد کے ایک یہ بھی ہے کہ درود شریف کی دعا چونکہ قبول شدہ ہے اس لئے اگر اپنی ذاتی دعا سے پہلے اور پیچھے اسے پڑھ لیا جائے تو یہ امر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شفاعت کے معنوں میں قبولیتِ دعا کے لئے بہت بھاری ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔
پھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم چونکہ بنی نوع انسان کی شفقت کی وجہ سے ہر ایک انسان کی زندگی کے بہترین دینی و دنیوی مقاصد کے حصول کے خواہاں ہیں اس لئے آپ ہی کے مقاصد میں اگر اپنے مقاصد کو بھی شامل کر کے درود شریف پڑھا جائے تو یہ امر بھی قبولیت دعا اور حصولِ مقاصد کے معنوں میں نہایت مفید ہے کوئی مشکل امر جو حاصل نہ ہو سکتا ہو درود شریف پڑھنے سے اس صورت میں حاصل اور حل ہو سکتا ہے کہ درود شریف پڑھنے سے جو دس گنا ثواب جزا کے طور پر ملتا ہے اس ثواب کو مشکل کے حل ہونے کی صورت میں جذب کیاجائے اس طرح ضرور کامیابی حاصل ہوتی ہے۔

قربِ الٰہی کا عجیب و غریب ذریعہ 

چونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کو معراج بھی قرار دیا ہے اور درود شریف نماز کا جزو ہے اس لئے درود شریف معراج کے معنوں میں قربِ الٰہی اور وصلِ الٰہی کے منازل تک پہنچانے کے لئے عجیب ذریعہ ہے۔ چنانچہ بعض روایات میں پایا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم شب معراج خدا تعالیٰ کے قرب اور وصل کے لحاظ سے اس مقام اور مرتبہ پر پہنچے جہاں کے لئے فرمایا کہ لِیْ مَعَ اللّٰہِ وَقْتٌ لَّا یَسَعُنِیْ فِیْہِ نَبِیٌّ مُرْسَلَ وَلَا مَلَکٌ مُّقَرُّبٌ یعنی خدا کی معیت اور حالتِ وصول کے لحاظ سے مجھے وہ وقت بھی میسر آجاتا ہے کہ میں قرب اور وصلِ الٰہی کے اس بلند تر اور قریب تر مرتبہ پر ہوتا ہوں جہاں نہ کوئی نبی مرسل پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی کسی مَلکِ مقرّب کی رسائی ہے بعض روایات میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے حضور پہنچے تو آپ نے فرمایا اَلتَّحیَاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ کہ ہر قسم کی قولی اور بدنی اور مالی قربانی خدا ہی کے لئے ہے۔ اس کے جواب میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے یہ فرمایا گیا اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ۔ گویا سلام رحمت اور برکات ہر سہ امور خدا تعالیٰ کی طرف سے پیش کئے گئے۔
اب ان الفاظ کے پڑھنے کا موقع نماز میں قعدہ اور تشہد ہے۔ تشہد سے مرتبہ شہود کی طرف بھی اشارہ ہے کہ ہر ایک مومن نماز کے ذریعہ جو معراج المومنین ہے تشہد کی آخری منزل میں قرب اور وصلِ الٰہی کے مرتبہ کو حاصل کرنے والا ہے چنانچہ مومن کا التَّحیات لِلّٰہ والصلوات والطیبات کے الفاظ کو خدا کے حضور پیش کرنا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ظلیّت میں آپ کی مظہریّت اور فنا فی الرسول کے مرتبہ کو حاصل کرنا ہے۔کیونکہ یہ مرتبہ اصالۃً اور حقیقۃً آپ ؐ کا ہے اور اس پر جو شخص بھی فائز ہو گا ظلی اور بروزی طور پر ہی ہوگا اور جب مومن اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗ کے الفاظ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حضور پیش کرتا ہے تو اس وقت یہ فنا فی اﷲ کی حیثیت میں خدا تعالیٰ کی ظلیّت کی چادر پہن کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر درود بھیجتا ہے۔
پس درود شریف ان معنوں کے لحاظ سے نماز کی اس حقیقت پر بہترین دلالت ہے جو معراج کے معنوں پر اشتمال رکھتی ہے کیونکہ درود شریف سے فنا فی الرسول اور فنا فی اﷲ اور اﷲ اور رسول کی ظلیّت کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے وھوالمراد رزقنا اللّٰہ ھٰذا المرام۔
اسی طرح وہ سب مومن جو نماز کے معراج کی برکات سے متمتع ہوتے ہیں وہ سب کے سب آلِ محمدؐ میں داخل ہیں چنانچہ خدا تعالیٰ کے سلام میں جو بالفاظ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے لئے پیش ہوا۔ آپؐ نے اسے اپنی ذات تک محدود نہیں رکھا۔ بلکہ اس کے ساتھ ہی اَلسَّلَام ُعَلَیْنَا وَ عَلیٰ عِبَادِ اللّٰہِ الصّٰلِحِیْنَ فرما کر اس سلام میں اپنی آل کو بھی جو عباداللّٰہ الصَّالحین ہیں شامل فرما لیا اور جیسے یصلّون علی النبیّ کے ارشاد میں النبی کے لفظ کے نیچے محمد اور آل محمد کو پیش کیا اسی طرح اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗ کے فقرہ میں لفظ نبی کے نیچے اَلسَّلَام ُعَلَیْنَا وَ عَلیٰ عِبَادِ اللّٰہِ الصّٰلِحِیْنَ فرما کر عَلَیْنَا کی ضمیر جمع متکلم جو مجرور واقع ہوئی ہے اس سے عِبَادِ اللّٰہِ الصّٰلِحِیْنَ کی شمولیت کی وضاحت فرما دی کہ النبی اپنے سلسلہ نبوت کے امتداد کے لئے عِبَادِ اللّٰہِ الصّٰلِحِیْنَکے وجود کا بالضرور مقتضی ہے تا نبی کی شخصی زندگی کے خاتمہ کے بعد آل نبی اور عباد اﷲ الصّالحین اس کی تعلیم اور امانتِ نبوت کے حامل پائے جائیں۔ سو جس طرح اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَاالنَّبِیُّ الخ کے فقرہ کے بعد اَلسَّلَام ُعَلَیْنَا وَ عَلیٰ عِبَادِ اللّٰہِ الصّٰلِحِیْنَ فرما کر نبی کے ساتھ عباد اﷲ الصّالحین کا الحاق فرمایا اسی طرح اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ اور اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ الخ میں وَ عَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کے الحاق کو پیش کیا اور سلام کے الفاظ میں جنہیں عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ کے وصف سے نامزد کیا۔ انہیں صلوٰۃ والی بشارت میں آل محمد کے لفظ سے تعبیر کر دیا۔ اس وضاحت اور الحاق سے آپ کی امید افزاء بشارت نے بتا دیا کہ جو کمالات قرب الٰہی اور وصل الٰہی کے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہیں وہ سب کے سب ظلّی طو رپر آپ کی آل کو وراثتاً عطا ہو سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اَلصّلوٰۃ معراج النبی نہیں فرمایابلکہ اَلصّلوٰۃ معراج المومن فرمایا کہ اس معراج میں ہر ایک مومن اپنے نبی کی اقتدا میں ظلّی طور پر حصہ دار ہے۔

ایّہا النبِیّ کے خطاب میں ایک خاص نکتہ

یہ بات کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تو فوت ہو چکے ہیں اور حاضر نہیں پھر آپؐ کو التّحیات میں بیٹھ کر ایّہا النبیّ کے صیغہ مخاطب سے پکارنا کس وجہ سے ہے؟اس کے متعلق عرض ہے کہ یہ خطاب شخصی حیثیت سے نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یا محمد نہیں کہا جاتا اور جہاں درود شریف میں محمدؐ کا لفظ لایا گیا ہے وہاں اللّٰہمّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ عَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کے الفاظ سے خطاب خداتعالیٰ سے کیا ہے اور محمد اور آلِ محمد کو صیغہ غائب کی حیثیت میں پیش کیا ہے ایّہا النبیّ کے صیغہ خطاب کو لانے سے یہ مدّعا ہے کہ مومن نماز کے آخری نتیجہ میں اور اس کے آخری حصہ میں روحانیت کے اس بلند تر مقام کو جس کے حصول کے لئے نماز کو معراج بتایا گیا ہے حاصل کر کے صرف شخصی حیثیت کے محمد کو نہیں بلکہ محمدؐ بشانِ نبوت کو اپنی ظلیت کے مرتبہ پر مشاہدہ کرے اور انوار نبوت کو مشاہدہ کرتے ہوئے النبی کو پردہ غائب میں نہیں بلکہ مرتبہ شہود میں انکشافِ سرِّ حقیقت و حقیقتِ سرِّ نبوت منہ سے یہ کہے کہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَاالنَّبِیُّ۔پس یہ خطاب اور صیغہ مخاطب صرف قال کے لحاظ سے نہیں بلکہ حال کے لحاظ سے بھی ہے۔ خدا تعالیٰ ہر مومن کو یہ مرتبہ عطا کرے۔

انتخاب از : حیات قدسی جلد پنجم صفحہ 136 - 149
مکمل تحریر >>