Wednesday 20 February 2019

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے اخلاقِ حسنہ کے چند ایمان افروز نمونے






حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے اخلاقِ حسنہ کے چند ایمان افروز نمونے
رقم فرمودہ :  شیخ محمد اسماعیل پانی پتی صاحب


 1924ء میں جب حضرت صاحب لندن تشریف لے گئے توواپسی پر آپ پانی پت کی طرف سے گزرے۔اس کا اعلان الفضل میں پہلے سے ہوگیاتھا۔ وقت مقررہ پر پانی پت کے احمدی حضور کوخوش آمدید کہنے کیلئے سٹیشن پرآئے۔شمس العلماء مولانا الطاف حسین حالیؔ کے فرزند جناب خانصاحب خواجہ سجاد حسین بھی آپ کی آمد کی خبر سن کر سٹیشن پرآپ سے ملنے آئے۔جب گاڑی سٹیشن پر آکر رکی توتمام احمدی احباب حضورسے شرف مصافحہ حاصل کرنے اورآپ کی زیارت کرنے کیلئے فوراً اُس درجہ میں چڑھ گئے جس میں حضور سوارتھے۔میں نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ مولانا حالی کے لڑکے خواجہ سجاد حسین صاحب بھی آپ سے ملنے سٹیشن پر آئے ہوئے ہیں اورنیچے پلیٹ فارم پر کھڑے ہیں وہ غیر احمدی ہیں اگرآپ ان سے ملنا چاہیں تو میں ان کو اندر درجے میں بلالوں۔حضرت صاحب نے فرمایا نہیں میں خود نیچے اترکر ان سے ملوں گا۔یہ فرماکر فوراً حضور کھڑے ہوئے اورپلیٹ فارم پر اترکر خواجہ صاحب سے نہایت تپاک کے ساتھ ملے اورگاڑی کے روانہ ہونے تک برابر ان سے باتیں کرتے رہے انہوں نے پانی پت کی بالائی تحفہ کے طورپر پیش کی جو آپ نے نہایت خندہ پیشانی سے قبول کی۔
یہی خواجہ سجاد حسین صاحب1928ء میں حضرت استاذی المحترم ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی دعوت پر جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے قادیان تشریف لائے۔ حضرت صاحب نے قصر خلافت میں خاص طورپر ان کوملاقات کا شرف بخشا ا وردروازہ تک خود ان کولینے کے لئے تشریف لائے اوربڑے اعزاز کے ساتھ ان کو اپنے اس گدیلے پر بٹھایا جس پر خودحضورتشریف رکھتے تھے۔خاکسار راقم الحروف بھی پانی پت سے خواجہ سجاد حسین صاحب کے ساتھ آیاتھااوراس وقت موجود تھا۔
حضرت صاحب نے خواجہ صاحب سے فرمایا۔ ’’آپ نے بڑی تکلیف کی جو اس ضعیفی اورپیرانہ سالی میں سفر کی صعوبت اٹھاکر یہاں تشریف لائے آپ کو یہاں کے قیام میں کوئی تکلیف تونہیں ہوئی ۔‘‘خواجہ صاحب نے فرمایا ’’الحمدﷲ میں بہت ہی آرام سے ہوں اورمجھے یہاں کسی قسم کی تکلیف نہیں بالکل گھر کاساآرام مل رہا ہے۔ جلسہ میں شامل ہوکر مجھے بہت خوشی ہوئی اور الحمدﷲ میں نے یہاں کاماحول نہایت دیندارانہ پایا۔‘‘
گفتگو کے دوران میں حضرت صاحب نے فرمایا: ’’خواجہ صاحب! میں آپ کے والد مولوی الطاف حسین حالی صاحب کا نہایت ممنون ہوں۔انہوں نے مجھے ایک نصیحت میرے بچپن میں کی تھی جو آج تک مجھے یاد ہے اورمیں اکثر اس کاذکر مختلف موقعوں پر کرچکا ہوں۔‘‘
خواجہ سجاد حسین صاحب مرحوم نے نہایت تعجب کے ساتھ پوچھا کہ والد مرحوم مولانا حالیؔکے ساتھ آپ کا کیا واقعہ ہوا تھا اور وہ کب اور کہاں آپ سے ملے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے فرمایا:
خواجہ صاحب مولانا حالی سے میری ملاقات توکبھی نہیں ہوئی۔مگر ایک خط میں نے ان کو ضرور لکھا تھا جس کا انہوں نے جواب دیاتھا۔میرے خط اوران کے جواب کی تفصیل یہ ہے کہ بچپن میں مجھے شاعری کاشوق پیداہوا تومیں نے سوچنا شروع کیا کہ اپنے شعروں کی اصلاح کس سے لیاکروں۔میں کئی دن تک اس بات کو سوچتارہااورآخر کار میرے دل میں یہ خیال آیا کہ مولوی الطاف حسین حالیؔسے بہتر سارے ہندوستان میں کوئی اورشاعر اس وقت نہیں(کیونکہ وہ اپنی مسدس کی بدولت تمام ملک میں بہت مشہور ہوچکے تھے۔)پس ان ہی کوشاعری میں اپنا استاد بنانا چاہیے۔یہ سوچتے ہی میں نے انہیں پانی پت میں خط لکھا کہ ’’میں ابھی چھوٹا بچہ ہوں مگر مجھے شعرکہنے کا بڑاشوق ہے اورمیں شاعری میں آپ کو اپنا استاد بنانا چاہتاہوں۔اگرمیں یہاں سے اپنے اشعار اوراپنی نظمیں آپ کولکھ کر بھیج دیاکروں اوران کی اصلاح کرکے آپ مجھے واپس بھیج دیاکریں تومیں آپ کی اس مہربانی اورعنایت کا نہایت شکرگزار ہوں گا۔‘‘
مولانا حالیؔنے میرے خط کا فوراًجواب دیا۔اس خط میں انہوں نے مجھے لکھا تھاکہ ’’میاں صاحبزادے! تمہاراخط پہنچا جس میں تم نے اپنے شوق کا ذکر کیا ہے اوراس شوق میں مجھے اپنا استاد بنانا چاہاہے۔میاں اس سلسلہ میں میری نصیحت تمہیں یہی ہے کہ شاعری بے کاری کا دھندا ہے ۔اس فضول جھنجھٹ میں نہ پڑو۔اس وقت تمہاری عمرشاعری کی نہیں بلکہ تحصیل علم کی ہے۔پس نہایت دل لگا کر اوربالکل یکسو ہوکر علم حاصل کرو۔جو وقت شاعری جیسے بے کار شغل میں گنوانا چاہتے ہووہ تحصیل علم میں صرف کرواورکسی طرف خیال اوردھیان کونہ لگاؤ۔جب لکھ پڑھ کر فارغ ہوجاؤ گے اوربڑے ہوکر فکر معاش سے بھی فراغت ہوگی تو اُس وقت شاعری بھی کرلینا کون سی بھاگی جارہی ہے۔‘‘
یہ واقعہ بیان کرکے حضرت صاحب خواجہ صاحب سے فرمانے لگے کہ ’’خواجہ صاحب ! جب میں نے یہ خط آپ کے والد صاحب کو لکھاتھا اس وقت میں بچہ تھا اوراب بوڑھا ہوگیا ہوں مگراب بھی جب کبھی مجھے مولانا حالیؔکی یہ نصیحت یاد آتی ہے توبڑی پیاری لگتی ہے اورمیں خیال کرنے لگتا ہوں کہ واقعی مولانا حالی نے مجھے بہت ہی عمدہ اورنہایت نیک مشورہ دیاتھا۔مجھے اس نصیحت میں ہمیشہ مولانا کا خلوص جھلکتا ہوانظر آتاہے اوربے اختیار ان کی نیکی اورشرافت کی تعریف کرنے کودل چاہتاہے۔‘‘
حضرت صاحب کی زبان سے یہ واقعہ سن کر خواجہ سجاد حسین صاحب نے کہا کہ آپ نے ٹھیک فرمایا۔ والد صاحب مرحوم کا قاعدہ تھا کہ وہ لوگوں کو شعر کہنے سے روکتے اور اپنے شاگرد بننے سے منع کیا کرتے تھے کیونکہ لوگوں نے بیکار اور فضول شعر کہنا اپنا پیشہ بنا لیا ہے اور اس سے وہ کام نہیں لیتے جو درحقیقت لینا چاہیے۔ اسی لیے ہماری شاعری بیکاری کا مشغلہ بن کر رہ گئی ہے اس کے بعد کچھ متفرق باتیں ہوتی رہیں اورآدھ گھنٹے کی نہایت دلچسپ ملاقات کے بعد یہ صحبت ختم ہوئی۔

تقسیم ملک کے بعد 1947ء میں جب حضور قادیان سے ہجرت فرماکر پاکستان تشریف لائے اور لاہور کے رتن باغ میں قیام فرمایا توابتدا میں بہت سے لوگ ایک انتظام اورتنظیم کے ماتحت بسوں میں قادیان جاتے اورواپس آیاکرتے تھے۔ایک روز شام کے وقت رتن باغ کے لان میں ایک کارکن نے لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ اعلان کیاکہ ’’کل صبح سویرے جوقافلہ قادیان کے لئے روانہ ہورہاہے اس میں جوجوآدمی شامل ہوکرقادیان جاناچاہیں وہ نماز مغرب کے فوراً بعد یہاں حاضر ہوکر اپنے اپنے نام لکھوادیں۔‘‘
چونکہ یہ اعلان لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ بہت بلند آواز سے کیاگیا تھا۔لہٰذا حضرت صاحب نے بھی اپنے کمرہ میں سنا اورفوراً ایک صاحب کے ہاتھ کہلا بھیجا کہ ابھی ابھی جواعلان ہوا ہے یہ بالکل غلط ہے میر ی طرف سے لاؤڈ سپیکر پر یہ اعلان کردیاجائے کہ ’’جو جو حضرات کل صبح قادیان تشریف لے جانے کا ارادہ رکھتے ہوں وہ نماز مغرب کے بعد ازراہ کرم دفترمیں تشریف لے آئیں تاکہ ان کے اسم ہائے گرامی نوٹ کرلئے جائیں اورسفر کے لئے جوضروری ہدایات ہوں وہ بھی انہیں سمجھادی جائیں‘‘۔
حضور کے اعلیٰ اورشریفانہ طرز تخاطب کا یہ واقعہ کتنااچھا نمونہ ہے جو میں نے دیکھا ہے۔

ایک دعوت میں جس میں میں بھی حاضر تھا منتظمین نے حضرت صاحب کے بیٹھنے کے لئے خاص الخاص اہتمام کیا ۔دری پر ایک قالین بچھائی ،ایک بڑاگاؤ تکیہ لگایا۔کھانے کی کئی پلیٹیں آپ کے آگے دسترخوان پر قرینے سے لاکررکھیں۔جب حضرت صاحب تشریف لائے توآپ نے اس سازوسامان اورخاص انتظام و انصرام کودیکھ کر فرمایا کہ ’’یہ تکیہ میرے لئے خاص طورپر کیوں لگایاگیاہے اوریہ قالین خاص میرے لئے کیوں بچھائی گئی ہے۔اٹھاؤ دونوں چیزوں کو جس طرح اورتمام احباب بیٹھے ہوئے ہیں میں بھی سب کے ساتھ اسی طرح بیٹھوں گا۔‘‘
حکم کی تعمیل میں دونوں چیزیں فوراً اٹھالی گئیں اورحضورسب لوگوں کے ساتھ دری پر بیٹھ گئے اوربیٹھتے ہی اپنے دائیں بائیں بیٹھنے والے احباب سے فرمایا کہ آپ صاحبان اتنے الگ الگ اوردوردور کیوں بیٹھے ہیں میرے پاس آکر بیٹھیں۔پھرفرمایا کہ یہ چارپانچ پلیٹیں میرے سامنے کیوں لاکر رکھی گئی ہیں جب کہ تمام حاضرین کے سامنے ایک ایک پلیٹ ہے یہ سب اٹھاؤ اورصرف ایک پلیٹ رہنے دو۔میں کوئی دیو تونہیں جوچار پانچ پلیٹیں بھر کر کھاؤں گا۔اس کے بعد جب منتظمین نے کھانا تمام مہمانوں کے آگے رکھ دیا توحضور نے بلند آواز سے فرمایا کہ کیا کھانا سب دوستوں کے پاس پہنچ گیا ہے۔اس پر ایک صاحب نے کھڑے ہوکر کہا کہ’’ حضور میرے آگے کھانا نہیں آیا‘‘اس پر حضور نے منتظمین کو ہدایت کی’’ ان صاحب کو فوراً کھانا پہنچاؤ‘‘ایک دومنٹ کے بعد حضور نے پھر ان صاحب کو مخاطب کرکے بلند آواز سے پوچھا کہ ’’کیاآپ کوکھانا پہنچ گیا ،جب ان صاحب نے کہا ’’ہاں حضور پہنچ گیا ہے۔‘‘تب حضور نے احباب سے فرمایا کہ ’’الحمدﷲ کہہ کر کھانا شروع فرمائیں۔‘‘
(ماہنامہ انصاراﷲ جنوری1966ء صفحہ23تا28)
مکمل تحریر >>

Thursday 31 January 2019

ہمارے پیارے امام ایّدہ اللہ ’’جس کو ملنے سے روح جگمگانے لگے‘‘





ہمارے پیارے امام ایّدہ اللہ
’’جس کو ملنے سے روح جگمگانے لگے‘‘
( مبارک  احمدصدیقی۔لندن)


برطانیہ میں رہنے والے احمدی احباب یقیناََ بہت خوش قسمت ہیں۔ یہاں پر رہنے والے بہت سے احمدیوں کی طرح مجھے بھی ہمارے محبوب امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے ۔ یا یہ کہنا مناسب ہو گا کہ مجھے کم از کم پاکستان اور دور دراز کے ممالک میں رہنے والے احمدی احباب کی نسبت حضور انور کو زیادہ قریب سے دیکھنے کی سعادت ملی ہے۔ میں نے حضور کو قریب سے دیکھا ہے ، ایسے غم کے وقت میں بھی جب اُسی دن حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو پچاسی کے قریب احمدیوں کی شہادت کی خبر ملی تھی ، ہر آنکھ اشکبار تھی۔ مجھے حضور کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ حضور انور کی آنکھ سے گرنے والے ایک آنسو سے کئی اور داستانیں رقم ہو سکتی تھیں۔کسی اور مسلک کے راہنما کے لئے وہ وقت تھا کہ وہ اپنے خطاب کی سوزش کو سننے والوں کے سینوں میں لگی دکھ کی آگ سے ملا کر ، ایسا انقلاب انگیز خطاب کر تا کہ تاریخ میں بہترین مقر ر لکھا جاتا اور لوگ برسوں عش عش کرتے۔ پھر ایسی خوشی کے موقع پر بھی حضور انور کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اکلوتے صاحبزادے صاحبزادہ مرزا وقا ص احمد صاحب کی شادی کا دن تھا۔ خوشی اور غمی کی ایسی لہروں پر ضبط کے پشتوں کا ایسا نظارہ یقینا اللہ تعالیٰ کی خاص اور بہت خاص مدد کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ 
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی زندگی کے بہت سے پہلو ہیں جن پر با آسانی بہت سی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں تاہم آج میں نے ایک پہلو کا انتخاب کیا ہے۔اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے ساتھ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی حیرت انگیز یاد داشت اور اس کی وجہ سے تمام دنیا کے احمدیوں کے حالات سے باخبر رہنا ۔ یہ ایک ایسی غیر معمولی بات ہے کہ قریب رہنے والے یا بذریعہ خط و کتابت حضور سے رابطہ رکھنے والے احمدی احباب بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ سوائے اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت کے ممکن ہی نہیں ہے کہ ایک انسانی ذہن میں دنیا میں بسنے والے ہزاروں لاکھوں کروڑوں افراد کا بائیو ڈیٹا کسی نہ کسی رنگ میں موجود ہو۔ 
اس سے قبل ایک مضمون میں خاکسار نے لکھا تھا کہ مکرم و محترم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت احمدیہ یوکے نے ایک مرتبہ ایک انٹر ویو میں کہا تھا کہ میرے لئے ایک بات بہت حیران کن ہے کہ بعض خبریں صرف مجھے معلوم ہوتی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ خوش خبری سب سے پہلے میں حضور تک پہنچائوں لیکن حیرت کی بات ہے کہ حضور کو پہلے سے اُس کا علم ہو جاتا ہے۔ خاکسار نے اس بات کا ذکر محترم منیرا حمد جاوید پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے کیا کہ محترم امیر صاحب اس طر ح کہہ رہے تھے ۔ وہ یہ بات سن کر باقاعدہ ہنس پڑے کہنے لگے کہ میں جو بالکل ساتھ دفتر میں ہر وقت موجود ہوتا ہوں بعض اوقات مجھے اُن خبروں کا علم نہیں ہوتا میں حضور کو بتانے کے لئے جاتا ہوں۔ بہت سی باتوں کا حضور ِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو پہلے سے علم ہو چکا ہوتاہے اور یہ خلیفۂ وقت کی اللہ تعالیٰ سے غیبی مدد ہے اور حضور انور کا جماعت احمدیہ کے افرادسے ذاتی تعلق ہے ۔
سب سے پہلے مَیں ایک بات تسلیم کرتا چلوں کہ ایک چھوٹے سے حلقے کے صدر جماعت کو بھی بعض اوقات مکمل طور پر علم نہیں ہوتا کہ اُس کے حلقے میں ہر فرد کا کیا نام ہے اور کس کے کیا حالات ہیں۔ جب کہ امام وقت ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دنیا بھر کے دوسو سے زائد ممالک کے احمدیوں پر نظر ہوتی ہے اور وہ احمدیوں کی دینی و دنیاوی امور میں راہنمائی کر رہے ہوتے ہیں۔ خاکسار لندن کے ایک نواحی علاقے ایپسم جماعت کا صدر ہے۔ حال ہی میں ہمارے حلقے میں ایک فیونرل سروس (میت کو نہلانے اور تدفین کے انتظامات کرنے والی سروس) کا آغاز ہوا ہے جس کے عقب میں ہمیں ایک چھوٹا سا نماز سنٹر بھی بنانے کی سعادت مل گئی ہے۔ہم مجلس عاملہ کے سبھی ارکان روزانہ وہیں پر جمع ہوتے ہیں۔ گزشتہ ایک ملاقات میں خاکسار نے حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو نماز سنٹر کی خوشخبری دیتے ہوئے کہا کہ وہاں فیونرل سروس بھی شروع ہو رہی ہے ۔ کچھ دنوں تک فیونرل سروس کا آغاز ہو جائے گا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اُس وقت ساتھ ساتھ کچھ اہم خطوط پر دستخط بھی فرما رہے تھے ۔ حضور انور نے اپنے اس کام میں مصروف رہتے ہوئے فرمایا کہ ’’ وہاں پہلی سروس ہو بھی گئی ہے۔ عامر انیس کی اہلیہ کی میت وہیں لے جائی گئی تھی۔ اب کل پرسوں ڈاکٹر مقبول ثانی کی والدہ کی میت بھی وہیں لے جائی جائے گی ‘‘۔ میں نے کافی زیادہ حیرانی سے اور لفظ کو لمبا کر کے کہا ’’اچھا ‘‘۔ حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا ’’اچھا تو آپ ایسے کہہ رہے ہیں جیسے آپ کو کچھ علم ہی نہیں ہے ‘‘۔ میں بہت زیادہ حیران ہوا کیونکہ ہم آ جکل زیادہ تر وہیں نماز سنٹر میں تھے اور ہمیں ابھی معلوم نہیں ہوا تھا کہ یہاں سروس شروع ہو چکی ہے۔ جن دو احباب کا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ذکر فرمایا تھا میں سمجھتا تھا کہ وہ صرف میرے ہی پرانے دوست ہیں اس لئے مجھے اُن کے نام یاد ہیں۔
بہر حال اُسی روز ہمارے حلقے کی عاملہ کی میٹنگ تھی۔ ایک باخبر دوست کہہ رہے تھے کہ تین دنوں تک یہاں سروس شروع ہوجائے گی ۔ دو تین دوستوں نے کہا کہ نہیں ابھی ایک دو ہفتے لگ سکتے ہیں۔ خاکسار نے قطع کلامی کرتے ہوئے کہا احباب ذرا رکیے۔ یہاں سروس شروع ہو چکی ہے اور یہ بات مجھے حضور سے معلوم ہوئی ہے ۔
اسی ملاقات میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’ آپ کل جمعہ میں دوسری صف میں بیٹھے تھے اور زیر لب کچھ پڑھ رہے تھے ؟‘‘ میں ششدر سا رہ گیا ۔ میں نے عرض کی حضور بالکل میں دوسری صف میں تھا۔ لیکن حضور کل تو اتفاق سے ایسے ہوا تھا کہ میں زیادہ وقت آپ کو ہی دیکھتا رہا تھا لیکن مجھے لگا تھا کہ آپ نے ہماری طرف کے لوگوں کو دیکھا ہی نہیں ۔ حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ مجھے آٹھویں صف تک میں بیٹھے لوگوں کا بھی پتہ ہوتا ہے کہ کون کون آیا ہوا ہے‘‘ 
  جہاں تک عاجزی و انکساری کی بات ہے آپ یقین کریں اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو میں کہوں گا کہ میں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے زیادہ منکسرالمزاج کوئی نہیں دیکھا۔ دو مرتبہ ایسے ہوا ہے کہ دورانِ گفتگو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ میں بڑا معمولی قسم کا بندہ ہوں۔
ایک موقع پر جب تعلیم الاسلام کالج اولڈ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی ایک تقریب تھی خوش قسمتی سے مجھے حضور کی قربت میں بیٹھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ میں نے کہا کہ حضور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بارہ سالوں سے میں دیکھ رہا ہوں ایک بھی جمعہ ایسا نہیں گزرا جب حضور نے خطبہ جمعہ ارشاد نہ فرمایا ہو یعنی ہر جمعہ کا خطبہ اور نماز حضور نے پڑھائی ہے تو حضور کبھی آپکا گلا خراب یا کھانسی یا بخار نہیں ہوتا۔(دراصل اس معاملے میں ، میں خود بہت حساس ہوں۔ گرد و غبار ، سردی یا فرائیڈ چیزوں کی تصویر بھی دیکھ لوں تو سانس کی تکلیف ہو جاتی ہے۔ اس لئے مجھے پوچھنا پڑا ) تو میں نے پوچھا کہ حضور کبھی آپکا گلا خراب یا کھانسی یا بخار نہیں ہوا۔ حضور انور نے مسکراتے ہوئے فرمایا میں معمولی قسم کا آدمی ہوں مجھے بھی سب کچھ ہوتا ہے میں ایک آدھ گولی کھا کے اپنے کام میں مصروف ہو جاتا ہوں۔ پھر کچھ توقف کے بعد فرمایا ’’ میں مزدور قسم کا بندہ ہوں۔ تمہاری طرح نازک مزاج نہیں ہوں‘‘۔اللہ اکبر ۔ وہ جن کے لئے کروڑوں احمدی احباب جان دینے کے لئے تیار ہیں ، دنیا کی وہ واحد مسلمان راہنما شخصیت جس کے اعزاز میں کیلی فورنیا کی پولیس نے ساری ٹریفک رکوا دی تھی اور جن کی نماز کی ادائیگی کے لئے کینیڈا کی مملکت نے اپنی پارلیمنٹ ہاؤس کے دروازے کھول د ئیے تھے وہ فرماتے ہیں میں مزدور قسم کا بندہ ہوں۔ 
ایک مرتبہ حضورِ انور جلسے کے انتظامات کا معائنہ فرمانے کے لئے مسجد فضل، مسجد بیت الفتوح، اسلام آباد اور جامعہ احمدیہ یوکے کا دورہ کرنے کے بعد جب حدیقۃالمہدی تشریف لائے اور مختلف شعبہ جات کا معائنہ کرنے لگے تو میں بھی برکت کے لئے قافلے کے پیچھے پیچھے کچھ فاصلے سے چلنے لگا۔ کافی استقلال دکھایا لیکن ایک موقع پر میں تھک کر واپس آگیا ۔ اس کے کچھ دنوں بعد حضور سے ملاقات کا موقع ملا ۔ میں نے اتنا پیدل چلنے کے حوالے سے عرض کی حضور آپ تھکتے نہیں ہیں؟۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا’ ’ تھک جاتا ہوں میں کوئی لوہے کا تو نہیں۔ لیکن میں کام جاری رکھتا ہوں‘‘۔ 
جب بھی دیکھا ہے تجھے عالم ِ نو دیکھا ہے 
مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا
میں آ ج کے موضوع کی طرف واپس آتا ہوں کہ کس طرح خط لکھنے والے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو یاد رہ جاتے ہیں اور کس طرح انتہائی تفصیلی خطوط پر بھی حضور کی نگاہ بابرکت ہوتی ہے۔پچھلے دنوں ٹی آئی کالج اولڈ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن برطانیہ کے کچھ طلباء نے مراکش جانے کا پروگرام بنایا۔ ٹکٹیں اور ہوٹل وغیرہ بُک کروانے کے بعد مجھے خیال پیدا ہوا کہ اس کے لئے تو حضور انور سے اجازت لینی چاہئے تھی۔ چنانچہ فوری طور پر سوچا کہ دیر سے ہی سہی لیکن اجازت کے لئے لکھ دینا چاہئے ۔ اگر اجازت نہ ملی تو ہر چند کہ ٹکٹیں نان ریفنڈیبل (Non-refundable) ہیں ہم نہیں جائیں گے۔ سو خاکسار نے پروگرام کی تفصیل لکھتے ہوئے اجازت اور دعا کی غرض سے حضور کی خدمت میں خط لکھ دیا۔ ساتھ لکھ دیا کہ ٹکٹیں بُک ہو چکی ہیں۔ پھر جب ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو خاکسار نے انتہائی ادب سے کہا کہ حضور ہم مراکش جا رہے ہیں اس کی اجازت کے لئے حضور کی خدمت میں خط لکھ دیا تھا۔ حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ میں نے اجازت دے دی ہوئی ہے۔ خط آپ کو مل جائے گا ۔ ساتھ ہی انتہائی دلکش مسکراہٹ کے ساتھ فرمایا وہ آپ نے اجازت تو نہیں مانگی تھی ، فلائٹ بُک کرکے مجھے صرف اطلاع ہی دی تھی۔ خاکسار اندر سے لرز گیا لیکن اوپر سے وضع داری قائم رکھتے ہوئے مَیں نے کہا حضور ازراہ شفقت ایک بات بتائیے کہ آپ یہ خطوط اتنی تفصیل سے پڑھتے کس وقت ہیں کیونکہ میرا خط تو کافی تفصیلی تھا اور حضور کو تو میں صبح سے رات گئے تک مصروف دیکھتا ہوں۔ اس پر حضور نے فرمایا اس کو چھوڑیں آپ نے یہ لکھا تھا کہ نہیں کہ ٹکٹیں بُک کروالی ہیں ، اجازت عطا فرمائی جائے۔ خاکسار نے کہا حضور لکھا تو بالکل ایسے ہی تھا ۔ مجھے بہت زیادہ تعجب اس بات پر ہوا کہ وہی فقرہ جو میں نے لکھا تھا حضورِ انور نے وہی لفظاََ لفظاََ سنایا۔
پھر میں نے عرض کی کہ ہماری ایسوسی ایشن کے ممبران کی خواہش ہے کہ آئندہ تقریب میں سارے ممبران کی حضور انور کے ساتھ گروپ فوٹو کی سعادت حاصل ہو۔ قارئین اب حیرت انگیز بات سنئے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ مجھے یاد ہے پچھلے سال گروپ فوٹو نہیں ہو سکی تھی۔ جب میں کار میں بیٹھنے لگا تھا تو آپ نے ذکر کیا تھا کہ گروپ فوٹو رہ گئی ہے۔ اللہ اکبر۔ کروڑوں افراد کے روحانی سربراہ ، دو سو سے زائد ممالک کے انتظامی اور تربیتی امور پر نظر رکھنے والے ، روزانہ پانچ وقت نماز پڑھانے اور ساتھ ساتھ ہزاروں خطوط دیکھنے والے ، اور دنیا بھر میں سفر کر کے وہاں کی پارلیمنٹ میں جا کر اسلام کے دعوت دینے والے ہمارے پیارے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو یاد تھا کہ پچھلے سال تقریب سے روانگی کے وقت جب حضور کار میں بیٹھنے لگے تھے تو ایک انتہائی معمولی سے شخص نے کہا تھا کہ حضور آج گروپ فوٹو رہ گئی ہے۔ سبحان اللہ۔ خدا تعالیٰ ہمارے پیارے امام کی عمر اور صحت میں برکت عطا فرماوے۔
دعا کے لئے خطوط لکھنے والوں کو میں کہوں گا کہ کبھی تصور بھی نہ کریں کہ شائد میرا سارا خط حضور نہ پڑھیںیا شائد میرے خط پر حضور انور کی نظر ہی نہ پڑے ۔ جو بار بار خط لکھتے ہیں حضور انور کو اُن کے نام اور حالات تک یاد ہوتے ہیں۔ہر چند کہ ہر روز حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو ملنے والے خطوط کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے پھر بھی خط لکھتے وقت اس کامل یقین کے ساتھ لکھئے کہ حضور انور یہ خط پڑھیں گے اور خاص طور پر میرے لئے دعا کریں گے اور اللہ تعالیٰ حضور انور کی دعائیں قبول فرمانے والا ہے۔ کبھی یہ ذہن میں نہ لائیں کہ اتنے بڑے بڑے خدمت گزاروں میں حضور کو مجھ جیسے نامعلوم شخص سے کہاں پیار ہوگا ۔ یا وہ میرا سارا خط شاید نہ پڑھیں۔ 
 گو کہ عاشق ہزاروں کھڑے ہیں اُدھر
 چشمِ تر ہم بھی جائیں گے اُس رہگزر
 ہم خطا کار ہیں جانتے ہیں مگر
 اُس کی پڑ جائے ہم پہ بھی شائد نظر
 آئو اُس سے ملیں آئو اُس سے ملیں
کے مصداق خلیفۂ وقت کی اپنے لئے محبت سے کبھی دستبردار نہ ہوں ۔ یقین کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو خط لکھنے والوں کے نام کا پتہ ہوتا ہے اور یہ بھی علم ہوتا ہے کہ کون مجھے خط لکھتا ہے اور کون نہیں لکھتا۔ایک مرتبہ بیرون ملک سے آئے ایک دوست ملاقات کے لئے حضور ِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ملاقات کے بعد مجھے انہوں نے بتایا کہ دورانِ ملاقات میںنے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ایک قلم بطور تبرک عطا کرنے کی درخواست کی ۔ حضور انور نے قلم عطا کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے کیا کرو گے۔ میں نے کہا حضور کو دعا کے لئے لکھا کروں گا۔ اس پر حضور ِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اس نام کا خط پہلے تو مجھے کبھی نہیں ملا ۔ یہ دوست ملاقا ت کے بعد آنکھوں میں آنسو لئے بہت ندامت محسوس کر رہے تھے، کہنے لگے واقعی میں اس سلسلے میں بہت سست تھا اور کبھی خط نہیں لکھ پایا اب باقاعدگی سے لکھا کروں گا۔
اے چھائوں چھائوں شخص تری عمر ہو دراز
قارئین ایک بات خود میرے لئے ابھی تک معمہ ہے کہ حضو ر یہ خط پڑھتے کس وقت ہیں اور تفصیلی اور مختلف طرز تحریر میں لکھے گئے خطوط پر کیسے حضور کی نگاہ ہوتی ہے۔ ایک تفصیلی خط میں نے لکھا جس میں کوئی آٹھ دس باتیں تھیں۔ ایک بات یہ بھی تھی کہ ہم محترم زرتشت منیر صاحب کے ساتھ ایک شام کر رہے ہیں حاضرین کے لئے ہم بریانی بنوا رہے ہیں۔ دیگر امور کی راہنمائی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ارشاد تھا کہ ’’ صرف بریانی کیوں۔ اچھا کھانا بنوائیں ‘‘ ۔ 
میں نے جو لکھا کہ سمجھ نہیں آتی کہ حضور انور یہ خطوط کس وقت پڑھتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ صبح سے لے کر نماز عشاء تک تو حضور انور کی زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح ساری دنیا کے سامنے ہے۔ سارا دن نمازوں ،عبادت ، دفتری امور کے ساتھ ساتھ انتظامی امور سے متعلق راہنمائی لینے والے ملاقاتیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے ، شام کو کوئی بیس پچیس فیملیاں ملاقات کے لئے ہوتی ہیں ہر فیملی میں دو تین ممبر بھی ہوں تو چالیس پچاس ا فراد بن جاتے ہیں اُن سب کو حضور انور ملاقات کا شرف بخشتے ہیں اور یہ ملاقاتیں صبح سے لے کر شام گئے تک جاری رہتی ہیں۔پچھلے دنوں کی بات ہے کہ دن کے کوئی دس بجے کے قریب خاکسار حضور انور سے ملاقات کر کے واپس اپنے کام پر گیا ۔ شام کو پرائیویٹ سیکریٹری صاحب کے دفتر جانا ہوا تو معلوم ہوا کہ ملاقاتوں کا سلسلہ اُسی طرح جاری ہے اور اب فیملی ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ یہ ملاقات بھی عام ملاقات نہیں بلکہ ہر کوئی ایک نئی زندگی اور نئی عقیدتیں لے کر نکلتا ہے۔ کسی دنیاوی لیڈر سے اگر ہم روز ملیں تو شائد معمول کی بات بن جائے لیکن میں نے یہاں عجیب نظارے دیکھے ہیں۔ ہر وقت ساتھ رہنے والے محترم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب بھی ہر مرتبہ ملاقات کے لئے دفتر اندر جانے سے پہلے ادب و احترام اور عقیدت سے سرشار لرز رہے ہوتے ہیں اور ہر ملاقات کے بعد حضور کے دفتر سے شاداب سے ہو کر باہر نکلتے ہیں اور ان کے چہرے سے طمانیت کا احساس واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔ تو میں عرض کر رہا تھا کہ حضور سارا دن تو اس طرح انتظامی امور کی اور احمدی احباب سے معمول کی ملاقاتوں میں مصروف ہوتے ہیں حضور اتنی زیادہ تعداد میں خط روزانہ کس وقت پڑھتے ہوں گے ۔ جہاں تک میرا قیاس ہے حضور دفتری اور انتظامی امور کے خطوط دن کے وقت پڑھتے ہوں گے جبکہ دنیا بھر سے آئے ہوئے وہ ذاتی خطوط جن میں احمدی احباب اپنے والدین سے زیادہ شفیق امام کو اپنے تمام تر حالات لکھ بھیجتے ہیں ممکن ہے وہ خطوط حضور دن بھر بارہ گھنٹے کام کرنے کے بعد رات گئے پڑھتے ہوں ۔ 
 قوم احمد جاگ تُو بھی جاگ اُس کے واسطے 
 ان گنت راتیں جو تیرے درد سے سویا نہیں
سو ہمیں چاہئے کہ ہم خود بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں دعا کے خط لکھتے رہیں اور اپنے بچوں کو بھی اس کی عادت ڈالیں۔ 
معزز قارئین آپ کو ایک اور بات بتاتا چلوں ۔ پچھلے سال کی بات ہے ۔ہماری تعلیم الاسلام کالج اولڈ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن برطانیہ نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں ایک درخواست بھجوائی کہ اب سے تین ماہ بعد ہم ایک تقریب کرنا چاہ رہے ہیں جس میں حضور انور سے شرکت کی موٗدبانہ درخواست ہے۔ حضور انور نے اس خط پر ارشاد فرمایا کہ آپ تقریب کریںمیں شامل ہونے کی کوشش کرو ں گا۔ ہم نے تقریب کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اب تقریبا دو ماہ سے زیادہ وقت گزر چکا تھا۔ خاکسار کو خوش قسمتی سے ملاقات کا موقع مل گیا ۔ میں نے عرض کی کہ حضور تقریب اب کچھ ہی دنوں میں ہے اورحضور انور نے ہم سے شرکت کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ سن کر مسکراتے ہوئے اپنے خط کے ہو بہو الفاظ فرمائے کہ میں نے وعدہ نہیں کیا تھا کہ میں آئوں گا ۔میں نے تو یہ کہا تھا آپ تقریب رکھ لیں میں شامل ہونے کی کوشش کروں گا۔ خاکسار نے ملاقات کے بعد مجلس عاملہ کو بڑے افسردہ دل سے بتایا کہ ہر چند کہ میں نے اپنی بہترین کوشش کی لیکن تین ماہ کے بعد بھی حضور کو اپنے  الفاظ ہوبہو یاد تھے۔ اس لئے ٹوٹے دل کے ساتھ ہی سہی لیکن ہم نے پروگرام کی تیاری جاری رکھی ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہماری خوش قسمتی کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہماری اس تقریب میں رونق افروز ہوئے اور ہماری حوصلہ افزائی کے لئے تقریباََ پچاس منٹ تک تشریف فرما رہے ۔ 
ایک مرتبہ کوئی سات آٹھ سال پہلے میں اچانک بہت بیمار ہوگیا۔ ہوا یوں کہ اپنڈکس Burst ہو گیا اور حالت غیر ہوگئی۔ تین دنوں کے بعد آپریشن ہوا اور ڈاکٹر کہنے لگے کہ زندہ بچ جانے پر حیرانگی ہے۔ ویسے مجھے بھی بیہوش ہوتے یہی لگا تھا کہ دنیا خدا حافظ۔ بہرحال ہسپتال جاتے ہوئے بھی اور وہاں سے بھی حضور انور کی خدمت میں دعا کی درخواست کا خط لکھا تھا۔  پھر صحت یاب ہونے کے بعد حضور کو لکھا کہ گھر آگیاہوں ۔ یہ خط لکھ کے ایک دوست کو دیا کہ مسجد پہنچا دو۔ کوئی بیس پچیس دنوں بعد اس’’ جلد باز‘‘ دوست سے ایک بازار میں ملاقات ہوئی۔ کہنے لگے کہ خط دستی دینا ہے کہ پوسٹ کر دوں۔ میرے ہاتھ سے شاپنگ بیگ چھوٹتے چھوٹتے بچے۔ اُس کے کچھ دنوں بعد ایم ٹی اے کا ایک پروگرام تھا۔ خاکسار بھی ایک نظم پڑھنے کے لئے جب سٹیج پر جانے کے لئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے قریب سے گزرا تو حضور انور نے صحت سے متعلق دریافت فرمایا اور فرمایا کہ بیمار ہونے کی اطلاع دی تھی ۔ صحت یاب ہونے کا خط نہیں لکھا تھا۔ یہ سن کر مجھے بیماری کے دن کی مشکلات بھول گئیں ۔اللہ تعالیٰ ہمارے محبوب امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بابرکت سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رکھے آمین۔ 
خدا سے یہ دعا کرو سدا یہ سائباں رہے 
سدا بہار کی طرح وفا کا گلستاں رہے 
چمن کا باغباں رہے
یہ جانتے ہیں آپ بھی اُسی میں آب و تاب ہے
شجر کے ساتھ جو رہے وہ شاخ کامیا ب ہے 
 وہ سبز ہے گلاب ہے
اُسی کے دم سے رونقیں اُسی سے یہ بہار ہے
امام وقت کے لئے یہ جان بھی نثار ہے 
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو دعا کے لئے لکھنے والے کبھی یہ خیال بھی نہ کریں کہ ہم نے جو کچھ خط میں لکھا ہے شائد وہ حضور انور کی نظروں سے نہ گزرے۔ امام وقت ایدہ اللہ کی ہر بات ہر قدم اور ہر نگاہ میں اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہوتی ہے۔ اور نگاہ ِ یار وہ شے ہے جو ذرّے کو بھی زر کردے والا معاملہ ہے۔ اس لئے ہمیں دعا کے لئے ضرور لکھتے رہنا چاہئے بلکہ جہاں ہم پریشانیوں کے وقت دعا کے لئے لکھتے ہیں وہیں پر ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ ہم خوشی کی خبریں بھی لکھیں۔ اور کوئی بات نہ ہو تو یہ ہی لکھ دیں کہ میں خیرو عافیت سے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ باقاعدگی سے پانچوں نمازیں پڑھ رہا ہوں۔ آپ سب یہ بات مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ حضور کو سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہوتی ہے کہ جب کوئی اپنے متعلق بتائے کہ میں نمازوں میں پابند ہوں۔ گزشتہ دنوں ایک حلقے کی مجلس عاملہ سے ملاقات کے دوران کا واقعہ ہے کہ حلقے کے صدر صاحب نے عرض کی کہ حضور ہم نے چندوں کے نظام کی طرف خصوصی توجہ دی ہے۔ خاکسار اس ملاقات میں نہیں تھا لیکن مولانا نسیم باجوہ صاحب سے معلوم ہوا ہے کہ حضورانور نے یہ سن کر ارشاد فرمایا تھا کہ مجھے نمازوں کی ادائیگی سے متعلق بتائیں۔ 
جرمنی کے ایک دوست بتا رہے تھے کہ ملاقات کے لئے حاضر ہوا تو سوچ رہا تھا کہ اپنا تعارف کرواوں گا۔ لیکن میرے تعارف سے پہلے ہی حضور انور نے فرمایا کہ آپ کے خط مجھے ملتے رہتے ہیں آپ کے دادا جان فلاں جگہ رہتے تھے آپ کے اباجان فلاں شہر میں کام کرتے تھے آپ کے چچا کی دکان وہاں ہوا کرتی تھی۔ وہ دوست کہنے لگے کہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتے باہر نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کتنا پیارا امام دیا ہے کہ آج میں اتنے برسوں بعد ملنے آیا ہوں تو مجھ جیسے گمشدہ آدمی کو بھی حضور نے پہچان لیا ہے۔
سٹوک میں رہنے والی میری خالہ زاد بہن جو کہ مکرم محمد افضل کھوکھر شہید گوجرانوالہ کی بیٹی اور محمد اشرف شہید کی چھوٹی بہن ہیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پہلی بار ملاقات کے لئے جارہی تھیں۔ ملاقات کے بعد مجھے بتانے لگیں کہ ملاقات کے لئے جاتے وقت میں سوچ رہی تھی کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تو مجھے جانتے بھی نہیں اس لئے از سرِ نو تعارف کروائوں گی۔ ملاقات کے چند لمحات کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ ِ العزیز نے فرمایا کہ میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ آپکے سٹوک والے گھر بھی گیا ہوا ہوں۔ 
محترم رانا مبارک صاحب آف علامہ اقبال ٹائون (مرحوم) نے ایک دن بتایا کہ میں حضور سے ملنے گیا تو حضور نے فرمایا کہ لاہور کے فلاں صاحب کی صحت اب کیسی ہے۔ آپ نے اپنے خط میں اُن کے متعلق لکھا تھا کہ وہ آج کل بیمار ہیں۔رانا صاحب بعد میں دوستوں کو بتا رہے تھے کہ میرا دل باغ باغ ہو گیا یہ سوچ کر کہ حضور کو میرے خطوط یاد تھے اور تین چار ماہ کے بعد بھی حضور کو اُن بیمار ہونے والے صاحب کا نام یاد تھا جبکہ وہ صاحب لاہور میں بھی بڑے گمنام سے تھے۔
ایک واقعہ جو خاکسار پہلے ایک مضمون میں لکھ چکا ہے وہ دوبارہ لکھتا ہوں کیونکہ وہ اس موضوع سے متعلق ہے جو اس وقت چل رہا ہے۔ میں نے ایک مرتبہ ملاقات کی درخواست دی۔ حضور انور نے ارشاد فرمایا ابھی مصروفیت ہے اگلے ہفتے پتہ کر لیں۔ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اگلے ہفتے خاکسار نے پھر ملاقات کے لئے لکھا تو ارشاد ہوا کہ ابھی مصروفیت ہے پھر کبھی پتہ کریں۔خاکسار خاموش ہوگیا کسی سے ذکر نہیں کیا۔ اس بات کو پانچ چھ ماہ گزرگئے۔ اس عرصے میں حضور انور نے کتنے لوگوں کو ملاقات کا شرف بخشا ہو گا ۔ اگر روزانہ یہ تعداد چالیس بھی ہو تو چھ ماہ میں مجموعی طور پر اندازاََ کوئی سات ہزار لوگ مل کر گئے ہوں گے ۔ اگر روزانہ خطوط کی تعداد پندرہ سو بھی لگائی جائے تو تقریباََ دو لاکھ ستر ہزار خطوط ملاحظہ فرما چکے ہوں گے۔ اسی دوران حضور انور نے یورپ کا دورہ فرمایا امریکہ بھی تشریف لے گئے جہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے حضور انور کو ملکی سطح پر پروٹوکول دیا گیا ۔بہرحال اتنے عرصے میں ، مَیں بھی یہ بات تقریباََ بھول گیا کہ میں نے ملاقات کے لئے لکھا تھا ۔ پھر خاکسار معمول کی فیملی ملاقات کے لئے حاضر ہوا۔ مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا تو پیارے حضور نے خاکسار کا ہاتھ پکڑے پکڑے فرمایا کہ آپ نے کچھ مہینے قبل ملاقات کے لئے پوچھا تھا اُن دنوں میری مصروفیات بہت زیادہ تھیں ۔ بعد میں ، میں نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے پوچھا بھی تھا کہ کیا آپ نے ملاقات کے لئے پھر سے پوچھا ہے ‘‘۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی یہ شفقت دیکھ کر دل نے سبحان اللہ اور اللہ اکبر کہا کہ اتنے ممالک کے دورے کے بعد بھی ایک معمولی خادم کے متعلق یاد رہا کہ اُسے ملاقات کا وقت نہیں دیا تھا۔سبحان اللہ ۔ 
  ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ بعض اوقات نام میرے ذہن سے محو ہو جاتے ہیں اور پھر حضور سے ملاقات میں تو انسان ویسے بھی عقیدت و محبت میں بہت کچھ بھول جاتا ہے ۔ کہنے لگے حضور نے کہا آپ کے چچا جان کیسے ہیںکیا نام اُن کا ؟ کہنے لگے گھبراہٹ میں چچا کا نام میرے ذہن سے محو ہو گیا۔ میں سوچنے لگا لیکن مجھ سے پہلے حضور نے میرے چچا کا نام لے لیا۔ کہنے لگے کہ ملاقات کے بعد میں نے چچا کو فون کیا کہ اس طرح ملاقات میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپ کا نام لیا ہے۔ اُن کے چچا خوشی سے سرشار ہو گئے اور کہنے لگے کہ میں زندگی میں صرف ایک بار حضور سے ربوہ میں ملا تھا اور حضور نے مجھ سے میرا نام پوچھا تھا۔
ہمارے بریڈ فورڈ والے محترم ڈاکٹر باری ملک صاحب نے ایک مرتبہ بتایا کہ حضور انور جب مہتمم بیرون مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی حیثیت میں یوکے کے دورہ پر تشریف لائے توان دنوں باری صاحب نارتھ ریجن کے ریجنل قائدمجلس خدام الاحمدیہ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے تھے۔حضور محترم میاں محمد صفی صاحب نیشنل قائد یو کے کے ہمراہ بریڈفورڈ تشریف لائے تو حضور نے کچھ دیر کے لئے باری صاحب کے گھر پر قیام فرمایا۔ خلافت کے بعد حضور انور جب پہلی بار بریڈفورڈ مسجد المہدی کا سنگ بنیاد رکھنے کیلئے تشریف لائے تو پہلے مسجد بیت الحمد تشریف لائے۔ باری صاحب حضور انور کو مسجد کے مختلف حصے ّ دکھا رہے تھے تواس دوران حضور نے محترم باری صاحب سے پوچھا کہ تم اب بھی اُسی گھر میں رہتے ہو جہاں میں آیا تھا ۔باری صاحب کہتے ہیں کہ حضور انور کی زبانی یہ بات سن کر مجھے بے انتہا خوشی ہوئی ۔
پھر باری بھائی نے ایک اور بات بتائی کہ اُن کی دادی جان صاحبہ بہت اچھا ساگ بناتی تھیں اور دعا کی غرض سے ہم وہ ساگ کا سالن بزرگوں کے گھروں میں بھی بھجواتے تھے اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی وہ ساگ کھایا ہوا تھا تاہم اس بات کو اب ایک بہت لمبا عرصہ گزر چکا تھا۔اکتوبر 2004ء میں حضور انور نے واقفین زندگی احباب کی بریڈ فورڈ میں دعوت فرمائی۔ ہم نے بریڈفورڈ کے قریبی قصبہ الکلے کے ایک خوبصورت مقام پر اس دعوت کا انتظام کیا۔ باربی کیو کا انتظام تھا کسی گھر سے ساگ بھی بھجوایا گیا تھا ۔کھانے کے دوران کسی دوست نے بتایا کہ حضور خاکسار کو یاد فرما رہے ہیں۔ خاکسار خدمت میں حا ضر ہوا تو حضور انور نے فرمایا’’ یہ ساگ ویسا نہیں ہے جیسا آپ کی دادی جان صاحبہ پکایا کرتی تھیںاُس ساگ کا مزا ہی اور تھا۔‘‘ ۔ باری بھائی کہتے ہیں کہ خاکسار کو حضور انور کی زبان مبارک سے یہ بات سن کر انتہائی خوشی ہوئی اور حیرت بھی ہوئی کہ اتنا لمبا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی حضور انور کو یہ بات یاد تھی ۔
ایک بہت اہم بات جس کا میں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے قریب رہ کر مشاہدہ کیا ہے وہ یہ ہے کوئی بھی فرد حضور کی محفل میں چھوٹا نہیں ہوتا ۔ بلکہ حضور ازرہ شفقت ہر کسی سے اُس کے مزاج، علمی استعداد اور ہنر کے مطابق بات کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ایک ہی دن ملاقاتوں میں حضور سے ایک ملاقاتی پانچ ملین پائونڈ کے پراجیکٹ کے لئے راہنمائی لے رہا ہو اور ممکن ہے کہ اگلا ملاقاتی پانچ ہزار پائونڈ والے خدمت خلق کے منصوبے کی بات کر رہا ہو۔ ایک ملاقاتی سائنسدان ہو سکتا ہے اور دوسرا عام سا مزدور ، ہنر مند ہو سکتا ہے ۔ حضور کسی کو یہ احساس نہیں دلواتے کہ تمہارا یہ چھوٹا سا منصوبہ ہے کسی اور سے جا کر پوچھ لو۔ 
ایک مرتبہ اردو زبان کی ایک ادبی محفل میں مجھے دو چہرے ایسے نظر آئے جو میرے لئے اور باقی تمام حاضرین کے لئے اجنبی تھے اورجن سے متعلق مجھے گمان نہیں بلکہ یقین تھا کہ انہیں اردو نہیں آتی ۔ یہ چہرے ایسے تھے کہ ہمیں بطور انچارج ایک دوسرے سے پوچھنا پڑا کہ انہیں کون جانتا ہے۔ سب نے نفی میں جواب دیا ہاں ایک دو مربیان کرام نے بتایا کہ مخلص احمدی ہیں۔ ایک افریقن دوست تھے اور ایک غالباََ انڈونیشین۔ دوران پروگرام خاکسار نے عرض کی کہ حضور آج کی مجلس میں دو افراد ایسے بھی ہیں جنہیں اردو نہیں آتی ۔غالباََ وہ صرف حضور کے دیدار کے لئے بیٹھے ہیں۔ حضور انور نے مسکراتے ہوئے اُن دونوں احباب کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا یہ آپ سے اچھی اردو بول لیتے ہیں۔ محفل کشت زعفران بن گئی۔ پھر حضو ر انور نے افریقن دوست کو ارشاد فرمایا ۔ وہ افریقن صاحب اپنی نشست سے اُٹھے اور اردو میں کہنے لگے کہ مجھے اردو شاعری اچھی طرح سمجھ آتی ہے۔ انڈونیشین صاحب نے بھی اردو میں کوئی بات کر کے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک دو نہیں بلکہ دوسو سے زائد ممالک میں رہنے والے احمدی احباب حضور انور کی توجہ اور دعائوں کا اعزاز پاتے ہیں۔ اگر ہم عرب کے لوگوں سے ملیں تو وہ کہتے ہیں کہ حضور سب سے زیادہ پیار عرب لوگوں سے کرتے ہیں، یورپ والے کہتے ہیں کہ ہم جب چاہیں گاڑی نکالیں اور اگلے دن جا کر حضور کی اقتداء میں نماز پڑھ سکتے ہیں ۔ ہم جیسا خوش قسمت کوئی نہیں۔ایشین احمدی ویسے ہی حضور کو اپنا ہی سمجھتے ہیں، بنگلہ دیش والے تو بہت ہی زیادہ خوش قسمت ہیں اور پھر افریقن احمدی احباب کے لئے حضور کی محبت سب سے سِوا معلوم ہوتی ہے۔ امریکہ کینیڈا، آسٹریلیا، غرض ہر قوم اور ہر خطے کے احمدی احباب حضور انور کی محبت، شفقت اور راہنمائی سے یکساں طور پر مستفید ہوتے ہیں ۔ کیا یہ خدا تعالیٰ کی خاص مدد کے بغیر ممکن ہے۔ ہر گز نہیں۔ 
اور اب مضمون کے اختتام پر میں وہ بات لکھنے لگا ہوں جس کی وجہ سے کل شام اس مضمون کو لکھنے کی تحریک ہوئی ۔کل شام یو نہی جب تنہائی میں ،میں نے پچھلے تیرہ سالوں کا جائزہ لیا تو یہ سوچ کر حیران رہ گیا ہوں کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے گزشتہ بارہ تیرہ سالوں میں ایک مرتبہ بھی کسی خط میں ، ملاقات میں، کسی تقریب کے لئے یا کسی پروگرام کے لئے ’’نہیں ‘‘ نہیں کہا اور ازراہ شفقت اجازت ہی دی ہے ۔ اب اتنے سالوں بعد انکشاف ہوا ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے لئے کسی بھی احمدی کو ’’نہیں ‘‘ کہنا انتہائی مشکل کام ہے۔ اس لئے جب سے اس حقیقت سے آگاہ ہوا ہوں کہ حضور کے لئے کسی کو ’’ نہیں ‘‘ کہنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ اب سوچا ہے کہ امام وقت ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے لئے صرف اور صرف دعا ہی کرنی ہے اور صرف دعا کے لئے ہی کہنا ہے۔ 
شائد کوئی سوچ رہا ہو کہ میں نے تو بیٹے یا بیٹی کی شادی کی تقریب میں بڑی محبت و عقیدت سے دعوت دی تھی، دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کی طرف سے معذرت آگئی تھی۔ بات یہ ہے قارئین کہ انتظامی امور کی بات بالکل مختلف ہے اور پوری دنیا ئے احمدیت میں نظام کو درست رکھنے کے لئے اور اجتماعی مفاد میں حضور انور کو ایسے فیصلے بھی کرنے پڑتے ہیں اور بہت سی تقاریب میں حضور شامل نہیں بھی ہوسکتے ۔ حضور انور کی مصروفیا ت کی ڈائری کئی کئی مہینے پہلے سے بھر ی ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ ایک آدمی ایک وقت میں دو جگہ نہیں ہو سکتا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کب کس کو وقت دیتے ہیں اور اس کی حکمت کیا ہے یہ ہم نہیں سمجھ سکتے ۔ کچھ سال قبل عیدالفطر کے بعد حضور مسجد بیت الفتوح میں سارے لوگوں کو یعنی چار پانچ ہزار مردوں کے پاس جا کر انہیں شرفِ مصافحہ بخش رہے تھے ۔ حضور تیز تیز چلتے ہوئے ہاتھ ملا کر آگے تشریف لے جاتے تھے ۔ پوری صف میں سے کسی ایک خوش قسمت شخص کے پاس رک کر ایک آدھی بات بھی فرماتے جو کہ یقیناً بہت بڑی خوش بختی تھی۔ مجھے بھی مصافحے کا شرف حاصل ہوا ۔ لیکن کوئی بھی بات نہیں ہوئی۔ مجھ سے آگے تیسرے شخص کے پاس حضور کچھ لمحات کے لئے رُکے اُس کا حال احوال پوچھا۔ ویسے وہ شخص میری طرح ہی پریشان حال دکھائی دینے والا تھا سو دل میں خیال پیدا ہوا کہ اگر کسی پریشان حال شخص سے ہی بات کرنی تھی تو وہ مَیں سب سے زیادہ موزوں تھا۔ کچھ دنوں بعد اتفاق سے اُسی اجنبی شخص سے ملاقات ہو گئی۔ میں نے مبارکباد دی کہ عید کے روز اتنے لوگوں کو چھوڑ کر حضور نے آپ کا حال پوچھا۔ وہ دوست بتانے لگے کہ میری صحت اچھی نہیں رہتی ۔ میں نے کچھ عرصہ قبل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں دعا کا خط لکھا تھا۔ عید کے دن حضور مجھ سے میری صحت سے متعلق دریافت فرما رہے تھے ۔ 
بہرحال یہ تو چند ایک مثالیں ہیں جو میں نے بغیر کسی خاص ترتیب کے سپرد قلم کی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے ہر فرد کے پاس ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔برکات ِ خلافت سے متعلق آپ یقیناً بڑے بڑے ایمان افروز واقعات بھی پڑتے رہتے ہیں، بڑی بڑی زبردست تحریریں بھی پڑھتے ہیں کہ کس طرح دنیا بھر میں اللہ تعالیٰ خلافت کی برکت سے جماعت کو ترقیات عطا فرما رہا ہے لیکن ان بظاہر چھوٹے چھوٹے واقعات کو دیکھ کر بھی انسان یہ مانے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آج اگر دنیا میں امن کی کوئی ضمانت ہے تو وہ خلافت احمدیہ ہی ہے جس میں تمام تر مصروفیات کے ساتھ ساتھ خلیفہ وقت ہر ہر ملک اور ہر ہر شہر کے احمدیوں کے حالات پر نظر رکھتے ہیں اور سب کے لئے دعا کرتے ہیں۔ اور ہر کسی کو یکساں طور پر براہ راست امام وقت کی راہنمائی میسر ہے۔ دنیا میں اس وقت کوئی دوسرا نظام ایسی مثال پیش نہیں کر سکتا ۔
اس لئے ہمیں دعا کے لئے ہمیشہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں لکھتے رہنا چاہئے ۔ یقینا ًآج کے دور میں امام وقت ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہی ذات ہے جن کی دعائیں اللہ تعالیٰ بطور خاص سنتا ہے اور اس کے گواہ ایک دو نہیں لاکھوں کروڑوں ہیں۔ اور ملاقات کو جانے والوں کو میں کہوں گا۔
وصال ِ یار کو جانا تو ہو کر با وضو جانا
مجسم باادب رہنا ، سرا پا آرزو جانا
نگاہِ یار وہ شے ہے جو ذرہ کو بھی زر کردے
اُٹھائے خاک سے اور شہر بھر میں معتبر کردے 
جو دانہ خاک میں ملنے کو بھی تیار ہوتا ہے 
وہی اک دن گلابوں کی طرح گلزار ہوتا ہے
جو عاشق جان دینے کے لئے تیار ہوتا ہے
اُسی کے بخت میں لکھا وصال ِ یار ہوتا ہے
عقیدت کے جلائے دیپ اُس کے روبرو جانا
وصال یار کو جانا تو ہو کے باوضو جانا
مجسم با ادب رہنا سراپا آرزو جانا
ایک مرتبہ میں ایک ملک سے مشاعرے میں شرکت کر کے لوٹا ۔ تین چار دنوں بعد ہی میری ملاقات تھی۔ میں نے سوچا کہ جا کر مشاعرے کی تفصیل بتائوں گا۔ میں نے عرض کی کہ حضور میں فلاں ملک مشاعرے کے لئے گیا تھا۔ اس پر حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا جی مجھے علم ہے فلاں فلاں شاعر کو داد ملی تھی آگے بتائو۔ میں نے عرض کی حضور بس میں دعا کے لئے حاضر ہوا تھا۔
انتخاب کے اگلے روز مجھے پاکستان سے ایک دوست کا فون آیا مبارکباد کے بعد کہنے لگا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز انتہائی کم گو اور انتہائی سنجیدہ شخصیت کے مالک ہیں اور انتظامی امور میں دستور اور قوانین کی سختی سے پابندی کرنے اور کروانے والے ہیں۔ فون کے اختتام پر اُس نے دبے لفظوں میں یہ بھی کہا کہ قوانین اور دستور پر پابندی کے معاملے میں آپ کو سخت طبیعت کا کہا جاسکتا ہے۔
خاکسار نے ایک روز ملاقات میں اس دوست کی بات کا ذکر کیا کہ اُس نے کہا تھا کہ آپ کو سخت طبیعت کا کہا جاسکتا ہے۔ پیارے آقا ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس پر بہت اور بہت مسکرائے اور دریافت فرمایا ’’ کون تھا وہ ‘‘؟ میں ہچکچاتے ہچکچاتے نام بتانے کے لئے تیار ہو ہی رہا تھا تو حضور نے فرمایا ’’ چلیں نام رہنے دیں‘‘ پھر مسکراتے ہوئے فرمایا ’’ اوہو بے چارہ۔ پتہ نہیں مَیں نے اُسے کیا کہا ہوگا اور اُس نے کیا سمجھ لیا ہوگا‘‘ ۔
( نوٹ۔ کوئی قاری یہ سمجھ سکتا ہے کہ شائد خاکسار ہر وقت حضور سے سوال ہی پوچھتا رہتا ہے۔ یاد رہے کہ اس مضمون میں لکھے گئے یہ چند ایک سوال گزشتہ بارہ تیرہ سالوں میں پوچھے گئے تھے جنہیںایک مضمون میں بیان کیا ہے) ۔

مکمل تحریر >>

Thursday 27 December 2018

حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ایک دن کی مصروفیات کی ایک جھلک



میرا دوست مجھے اپنے بیٹے کی شادی کا کارڈ تھما رہا تھا لیکن اُس کا چہرہ کچھ مغموم اور لہجہ قدرے اُداس تھا۔ وجہ پوچھنے پہ کہنے لگا کہ میری بڑی خواہش تھی کہ حضرت     امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز میرے بیٹے کی شادی میں شرکت فرماتے ۔اس سلسلے میں، مَیں حضور سے ملاقات کرنے بھی گیا تھا۔ میری بڑی خواہش تھی کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ملاقات میں بڑی دیر تک بیٹھتا اور اپنے سارے حالات بتاتا لیکن مجھے ملاقات کے لئے صرف تین چار منٹ کا وقت ملا۔ ابھی میں نے اور باتیں کرنی تھیں لیکن پرائیویٹ سیکریٹری صاحب مسکراتے ہوئے کمرے میں آگئے اور ملاقات ختم ہو گئی۔
یقینا اُس کی اُداسی میں خلو ص،محبت،چاہت اور عقیدت چھلک رہی تھی۔ ملاقات کے جس دورانیے کا وہ ذکر کر رہا تھا میرے خیال میں وہ بڑا خوش قسمت آدمی تھا ۔ وہ جن کے دیدار کے لئے نوبل انعام یافتہ لوگ، عالمی عدالتوں کے جج، اداروں کے سربراہان، مختلف ممالک کے وزراء، دانشور، صحافی، ادیب، کالم نگار، جماعت احمدیہ کے بڑے بڑے علمائے کرام، ہجوم میں ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کے  دیکھتے ہوںیامصافحے کے لئے بصد ادب و احترام قطاروں میں ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہوں،ایسے بابرکت وجود کے رُوبرو بیٹھ کے اُس روح پرور ماحول سے کس کا دل کرتا ہے کہ وہ وہاں سے اُٹھے۔
مجھے یادہے کہ اس دوست کی طرح ایک دن مَیں نے بھی ایسا ہی سوچا تھا لیکن پھر جب آہستہ آہستہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مصروفیات کو دیکھا تو جانا کہ ساری عمر میں ایک مرتبہ بھی رُوبرو ملاقات کا ایک لمحہ اور دیدار کی ایک جھلک بھی محض اللہ تعالیٰ کا فضل، انعام اور غنیمت ہے ۔ ایں سعادت بزور ِ بازو نیست ۔ ہر کسی کے مقدر میں یہ لمحہ نہیں آتا۔ دنیا بھر میں سینکڑوں نہیں، ہزاروں نہیں، لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں احمدی ایسے ہیں جو امام وقت کی ایک جھلک کے لئے ترستے ہیں۔پاکستان کے احمدیوں سے پوچھئے جن کے دل کا حال ایسا ہے کہ بقول حافظ شیرازی                                                                            
بازآ کہ در فراقِ تو چشمم زگریہ باز
 چُوںگوشِ روزہ دار بر اللہ اکبر است
تیرے فراق میں، مَیں ایسے اشکبار اور بیقرار ہو کے تیر ی راہ دیکھتا ہوں جیسے روزہ کھلنے کے وقت روزہ دار کے کان    اللہ اکبر کی صدا کی طرف لگے ہوتے ہیں۔
…………………
اپنے اس مضمون میں حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی جن مصروفیات کا ذکر میں کرنے جا رہا ہوں وہ میرے ذاتی مشاہدات کی باتیں ہیں ۔ چونکہ میں پرائیویٹ سیکریٹری صاحب کے دفتر میں کام کرنے والا کارکن نہیں ہوں اس لئے وقت کا یا تعداد کا ذکر کرتے ہوئے کمی بیشی کا احتمال موجود ہے اس لئے ان اعدادو شمار کو بطور ریفرنس استعمال نہ کرنے کی عاجزانہ درخواست ہے ۔  امام زمانہ کے کروڑوں عشاق کے ہجوم میں کھڑا میں بھی ایک ادنیٰ سا کارکن ہوں جس کا کہنا ہے:
گو کہ عاشق ہزاروںکھڑے ہیں اُدھر 
 چشم ِ تر ہم بھی جائیں گے اُس راہگزر 
ہم  خطا کار  ہیں  جانتے  ہیں مگر
 اُس کی پڑ جائے ہم پہ بھی شائد نظر
 آئو اُس سے ملیں  
…………………
بات یہ ہے کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز  ہمارے لئے ایک شفیق باپ کی طرح ہیں اور ساری جماعت کے افراد اُن کے لئے  بچوں کی طرح ہیں ۔  جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ ایک سال میں کل پانچ لاکھ پچیس ہزار چھ سو منٹ ہوتے ہیں۔ اب ایک شفیق باپ نے امام وقت نے ، اگر پندرہ سے بیس کروڑ بچوں کو وقت دینا ہو، ان کی دین و دنیا میں کامیابی کے لئے تربیت کرنی ہو، اُن کے دکھ درد کا مداوا کرنا ہو ، انہیں دنیا کے مصائب اور ابتلائوں سے اور آزمائشوںسے بچانے کے لئے بھرپور کوشش کرنی ہو، ان کے لئے اور اُن کی آئندہ نسلوں کی سہولیات کے لئے بڑے بڑے منصوبے بنانے ہوں تو ضرب تقسیم کے بعد ایک سال میں جتنے سیکنڈ یا سیکنڈ کا جتنا حصہ ہمارے حصے میں آتا ہے ہم سب اس بات کے گواہ ہیں اور شکر گزار ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اور  حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی شفقت کے باعث ہم سب کو اس سے کہیں زیادہ وقت مل رہا ہے۔ اور صرف یہی ایک پہلو اس بات کا گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی خلیفہ بناتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی قدم قدم پہ تائید و نصرت کے ساتھ ہی یہ سارے مرحلے طے ہوتے ہیں ورنہ اگر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی روزانہ کی مصروفیات کو دیکھا جائے تو حسابی ضربوں تقسیموں کے مطابق یہ سب ممکن ہی نہیں ہے اور اسے معجزہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں ہے۔ 
ایک چھوٹے سے حلقے کے صدر جماعت کو بعض اوقات اتنا خط وکتابت کا کام ہوتا ہے، پروگرام منعقد کرنے کے لئے اتنے انتظامات کروانے پڑتے ہیں کہ بعض اوقات گھبراہٹ شروع ہو جاتی ہے کہ اتنا کام کیسے ہوگا۔ اُس کے پاس بھی نائب صدر ،جنرل سیکرٹری اور پوری مجلس عاملہ ہوتی ہے۔ خلیفۂ وقت نے تو پوری دنیا کے کروڑوں احمدیوں کی روحانی ترقی اور تربیت کے ساتھ ساتھ پوری جماعت احمدیہ کے اداروں کے انتظامی امور کے حوالے سے راہنمائی فرمانی ہوتی ہے۔
مَیں اپنی بات کو آسان کر دیتا ہوں۔ مثال کے طور پہ  اگر کوئی دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے بیس گھنٹے مسلسل  بھی کام کرے تو اُس کے پاس کُل بارہ سو منٹ ہوں گے۔ ان بارہ سو منٹو ںمیں ہمارے پیارے امام حضرت      امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دنیا کے دو سو سے زائد ممالک سے آئے ہوئے تقریباً پندرہ سو خطوط  دیکھنے ہوتے ہیں۔ بہت سے خطوط کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے لیکن مَیں اپنے مشاہدات کی روشنی میں کہہ سکتا ہوں کہ  ان خطوط میں سے ایک اچھی خاصی تعداد ایسے اداروں یا اداروں کے شعبہ جات کے سربراہان کی طرف سے ہوتی ہے جسے اصل پیش کرنا ہی ضروری ہوتا ہے۔ بہت سے دفتری اور انتظامی امور کے فوری فیصلہ طلب خطوط ہوتے ہیں۔ بہت سے ممالک سے امرائے کرام، مر بیان کرام، مشنری انچارج اور مختلف شعبہ جات کے سربراہان، صدران اور منتظمین نے ایسے سوالات پوچھے ہوتے ہیں جن پر حتمی فیصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ پوری دنیا میں ترقی کر رہی ہے۔ کہاں مسجد بنانی ہے۔ کہاں مشن ہائوس بنانا ہے۔ کیا یہ جگہ مسجد کے لئے خرید لی جائے۔ جلسہ سالانہ کب، کہاں منعقد کیا جائے۔ سکول کہاں پہ بنایا جائے۔ ہسپتال کہاں پہ بنایا جائے۔ یہ ذمہ داری کس کے سپرد کی جائے فلاں ملک میں جماعت کے افراد کو ان مشکلات کاسامنا ہے۔ فلاں احمدی اس وقت ان حالات سے دوچار ہے؟ کیا کیا جائے۔ دنیا کہ فلاں فلاں خطے میں اس وقت انسانی ہمدردی کی بنیاد پہ خدمت خلق کے منصوبوں کی ضرورت ہے کیا کیا جائے ۔ پیارے حضور کیا یہ کر لیا جائے؟ کیا یہ نہ کیا جائے؟ کب؟ کون؟ کیسے؟ کہاں؟ ایسے سینکڑوںسوالات، درخوا ستیں منصوبے خطوط کی صو رت میںسامنے ہوتے ہیں۔ اب دنیاوی ضربوں تقسیموں کے حساب سے پندرہ سو خطوط کو پڑھنے اور جواب دینے میںاگر فی خط نصف منٹ بھی ہو تو کم از کم ساڑھے سات سو منٹ درکار ہو سکتے ہیں۔جبکہ آپ بہتر جانتے ہیں کہ بعض خطوط بہت زیادہ وقت بھی لے سکتے ہیں۔
پھر ذاتی نوعیت کے خطوط ہوتے ہیں۔ خلیفہ وقت چونکہ جماعت کے لئے ایک شفیق باپ کی طرح ہیں تو دنیا بھر سے امام وقت سے پیار کرنے والے خطوں میں اپنے دل کی باتیں دل کھول کر بیان کرتے ہیں بلکہ خط میں اپنا دل رکھ دیتے ہیں۔ ایک مرتبہ انتخاب سخن کی ڈاک دیکھتے ہوئے میں نے ایک خط پڑھا جو کہ دراصل حضور انور کے نام تھا لیکن غلطی سے میری ڈاک میں شامل ہو گیا تھا۔ کسی بیٹی نے اپنے حالات کا ایسا بیان لکھا ہوا تھا کہ جسے پڑھ کے میں کئی دن تک سخت غمگین رہا کہ کوئی اتنی زیادہ مشکلات کا بھی شکار ہوسکتا ہے۔پیارے حضور کو روزانہ ایسے بے شمار خط ملتے ہیں جنہیں اگر کوئی عام انسان پڑھے تو شائد اُس کے اعصاب جواب دے جائیں۔ اگر میں اُس خط کا ایک پیرا گراف لکھوں (جو ظاہر ہے مَیں کبھی بھی نہیں لکھوں گا  صرف مثال کے طور پر کہہ رہا ہوں) تو اُسے پڑھ کے کسی کو گلہ نہیں رہے گا کہ حضور نے فلاں موقع پر مجھے وقت کیوں نہیں دیا یا مجھے مسکرا کے کیوں نہیں دیکھا ۔آپ صرف یہی کہیں گے اور یقینا سب احمدی یہی کہتے ہیں 
امامِ وقت کے لئے یہ جان بھی نثار ہے
…………………
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز کے طرف سے آنے والے خطوط کے جوابات دیکھ کے ہم گواہی دے سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر خط پیارے حضور کی شفقت بھری نظروںسے گزرتا ہے اور ہمارے لئے دعائوں اور برکتوں کا باعث بنتا ہے۔ پیارے حضور کو علم ہوتا ہے کہ اس وقت فلاں ملک کے فلاں شہر یا گائوں میں فلاں  بچی اپنے گھر میں خوش نہیں ہے۔ فلاں بچے کو تعلیم جاری رکھنے کے لئے مالی مدد کی ضرورت ہے۔فلاں احمدی شخص اس وقت کس مشکل میں گرفتار ہے اور فلاں بیٹی کی شادی میں تاخیر ہو رہی ہے ۔تمام اداروں کے انتظامی امور کی دیکھ بھال اور پوری جماعت کی تربیت کے ساتھ ساتھ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کس کس طرح اور کس کس رنگ میںمستحق احباب کا خیال رکھتے ہیں اور اُن کی داد رسی کی کوشش فرماتے ہیں اُس کی فہرست کچھ ایسی طویل ہے کہ کسی کو پوری طرح علم نہیں ہے اور کسی کوبھی کانوں کان خبر نہیںہے۔ ہاں ہم یہ ضرور کہیں گے کہ ہمارے پیارے  حضور انور، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ان  جذبات کی تصویر نظر آتے ہیں
 مرا مقصود و مطلوب و تمنا خدمت خلق است
 ہمیں کارم ہمیں بارم ہمیں رسمم ہمیں راہم 
  ایشیاء کے کسی دور افتادہ گائوںسے کوئی خط ہو یا افریقہ کے کسی جنگل کی کسی آبادی سے کوئی خط ہو، امریکہ سے آسٹریلیا سے یا یورپ کے کسی ملک سے، کوئی یہ تصور بھی نہ کرے کہ اُس کا خط حضور انور تک نہیں پہنچے گا۔حیرت انگیز تجربہ ہے کہ حضور انور کو دنیا کے جس خطے سے جس پوسٹ سے جس ذریعے سے جس شخص  کے ہاتھ بھی خط روانہ کر یں  اُس کا دعائوں بھرا جواب مل جاتا ہے۔
…………………
یہ جو اوپر میں نے روزانہ خطوط کی تعداد پندرہ سو لکھی ہے بہت محتاط ہو کے اور کم سے کم لکھی ہے۔ ایک مرتبہ مکرم و محترم منیر جاوید صاحب جنہیں حضرت امیرالمومنین     ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے پرائیویٹ سیکرٹری ہونے کا اعزاز حاصل ہے اُن سے اس موضوع پہ بات ہو رہی تھی انہوں نے بتایا کہ عام دنوں میں خطوط وغیرہ کی تعداد  تقریباًپندرہ سو روزانہ ہے لیکن بعض دنوں میں تو ان خطوط اور فیکسز اور پاکستان سے آئی ڈاک میں شامل خطوط اور خلاصوں کی تعداد ملا کے یہ ڈاک پانچ ہزار تک بھی پہنچ جاتی ہے ۔ خاکسار کے دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ عام دعائیہ خطوط کے علاوہ دنیا بھر کے مربیان کرام،     امرائے کرام اور مختلف تنظیموں کے صدران وغیرہ بھی فوری نوعیت کی اطلاعات وغیرہ بذریعہ فیکس بھجواتے ہیں اور  اس طرح بعض دنوں میں ہماری فیکس مشین میں ایک دن میں کاغذوں کے دو پیکٹ سے زائد کاغذ ڈالنے پڑتے ہیں جبکہ ایک پیکٹ میںپانچ سو کاغذہوتے ہیں۔یہ سب پیغامات ایسے ہوتے ہیںجو فوری توجہ طلب ہوتے ہیں اور  فیکس بھجوانے والے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی راہنمائی کے طلبگار اور جوابی ہدایات کے منتظر بیٹھے ہوتے ہیں۔
…………………
قارئین کرام! خاکسار کو ایک دن حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک بہت قریبی اور بچپن کے دوست کے ساتھ بیٹھنے کی سعادت ملی۔ انہوں نے بتایا کہ ایک دن میں حضور کے دفتر میں یا غالباً گھر میں حضور کے ساتھ موجود تھا تو خطوںکاایک پیکٹ میں نے ایک میز سے اُٹھا کے دوسری میز پہ کچھ بے احتیاطی سے رکھا تو اس پہ حضور انور نے انتہائی  فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ احتیاط سے رکھیں  یہ خط مجھے اپنی جان کی طرح عزیز ہیں۔ ( حضور کے اصل الفاظ انہیں یاد نہ تھے لیکن اُن کا کہنا تھا کہ حضور کے کچھ ایسے جذبات تھے)۔
یہ خطوط جو دنیا بھر سے آتے ہیں یہ مختلف زبانوں میں لکھے ہوتے ہیں۔ ان میںاردو، انگریزی، عربی کے علاوہ بنگلہ، رشین، فرنچ، ترکش، چائینز، سواحیلی جرمن، ڈچ، سپینش، البانین، بلغارین، بوسنین، انڈونیشین، فارسی، ملائی، تامل، اور دیگر زبانوں میں خطوط ہوتے ہیں۔ بعض خطوط علاقائی زبانوں میں بھی ہوتے ہیں مثلاً پشتو یا سندھی میں پھر ہندوستان کی بہت سے علاقائی زبانوں میں خطوط ہوتے ہیں۔ اب ایسے خطوط کا فوری طورپرمتعلقہ زبان کے ماہر سے ترجمہ کروا کے حضور انور کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے اور اگر اُس زبان کو سمجھنے والا یہاں برطانیہ میں کوئی نہ ملے تو فیکس کر کے خط اُسی ملک بھجوا کے اُس کا ترجمہ منگوایا جاتا ہے ۔ان خطوط کی مختلف اقسام ہوتی ہیں بعض خطوط مختصر لیکن ان کے جوابات کے لئے بہت لمبا وقت اور تحقیق درکار ہوتی ہے۔بہت سے خطوط ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کا جواب دینے سے پہلے اس خط کے متعلقہ شعبہ سے رپورٹ منگوا کر پھر حضور انور جواب دیتے ہیں۔خطوط کی سینکڑوں اقسام میں سے ایک قسم کا ذکر کرتا ہوں۔ بعض لکھنے والوں نے حضور انور سے ہومیو پیتھی نسخہ تجویز کرنے کی درخواست کی ہوتی ہے۔ اب بعض احباب کو تو حضور انور خود نسخہ تجویز فرما دیتے ہیں لیکن بعض پیچیدہ بیماریوں کی تشخیص اور دوائی تجویز کرنے کے لئے خط ہومیو پیتھی کے شعبہ کو بھجوایا جاتا ہے اور وہ اس پر مکمل تحقیق کر کے رپورٹ حضور انور کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ پھر اس رپورٹ کے پیش نظر حضور انور جو ادویات تجویز فرماتے ہیں وہ خط میں لکھ کے انہیں خط کا جواب دیا جاتا ہے۔
…………………
اللہ تعالیٰ قدم قدم پہ ہمارے پیارے امام کا حامی و مددگار رہے آپ دنیا میں جہاں کہیں بھی ہوں دنیا بھر سے آئے ہوئے خطوط کے خلاصے یا تفصیلات اور اطلاعات  دوران سفر بھی آپ کی خدمت میں پیش کی جاتی ہیں اور حضور ہدایات لکھواتے جاتے ہیں۔ اور جیسا کہ اوپر عرض کیا کہ ان خطوط کے لئے ہی اگر دیکھا جائے تو ایک دن میں کم از کم سات آٹھ سو منٹ درکار ہو سکتے ہیں۔یہ وہ خطوط ہیں جو براہ راست حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے نام دنیا بھر کے احمدیوں کی طرف سے ہوتے ہیں۔اب ان خطوط کے علاوہ ہر شعبے اور ادارے کی اپنی ڈاک بھی ہوتی ہے جو ان کے سربراہ اپنے ساتھ لے کے حضور انور سے ملاقات کے لئے حاضر ہوتے ہیں اور حضور انور سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ قارئین کرام اتنے زیادہ خطوط اور ان کے ایسے پیارے دعائوں بھرے، شفقتوں بھرے، محبتوں بھرے جوابات یقینا یہ سب اللہ تعالیٰ کی خاص مدد کے ساتھ ہی ممکن ہے۔
…………………
پھر موسم گرم ہو یا برفباری ہو، تیز بارش ہو یا ہوائیں چل رہی ہوں، حضور انور دفتر میں موجود ہوں یا آسٹریلیا سے دو دن کا سفر کر کے مسجد فضل لندن پہنچے ہوں آپ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ پانچوں نمازیں باجماعت پڑھاتے ہیں۔ ایک نماز کی تیاری، وضو ا ورپڑھانے میں اگر کم ازکم بیس منٹ بھی لگیں تو پانچ نمازوں کے لئے ایک سو منٹ درکار ہیں۔ سنتیں، نوافل، تہجد، قرآن پاک کی تلاوت الگ سے ہیں۔ بعض نمازوںکے بعد نکاح پڑھانے، قرآن پاک کی تقاریب آمین اور نماز ہائے جنازہ ان کے علاوہ ہیں۔ 
…………………
ان سینکڑوںخطوط کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ، روزانہ دن بھر بہت سی دفتری ملاقاتیں بھی ہیں جن میں دنیا بھر میں ہونے والے پروگراموں کی تفصیلات طے کرنا اور منظوری عطا فرمانا بھی شامل ہے۔آپ سب جانتے ہی ہیں کہ   خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کس طرح منظم طریقے سے اور امام وقت کی نگرانی میں ہر کام سر انجام دیتی ہے۔ تعلیم و تربیت، قرآن پاک کی دنیا بھر میں اشاعت اور خدمت انسانیت کے منصوبہ جات کی تیاری اور منظوری کے مراحل مہینوںبلکہ سالوں پہلے سے شروع ہو جاتے ہیں۔  صدر ا نجمن کا ادارہ ہے جس کے ماتحت درجنوںادارے ہیں۔ تحریک جدید کا دفتر ہے جس کے ماتحت کئی ادارے ہیں۔ وقف جدید کا دفترہے جس کے ماتحت کئی شعبے ہیں۔ ایم ٹی اے انٹرنیشل ایک بڑا وسیع ادارہ ہے اور تمام تر پروگراموں کی تفصیل حضور انور کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے اور راہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ وکالت تبشیر کا ادارہ ہے جو دنیا بھرمیں مربیان کرام اور دو سو ممالک میں ہونے والے پروگراموں کے بارے میں حضور انور سے رہنمائی حاصل کرتا ہے ۔ وکالت مال ہے۔ امام صاحب کا دفتر ہے۔ دنیا بھر میں خدام، انصار، لجنہ کی ذیلی تنظیمیں ہیں۔  دو سو سے زائد ممالک کے امراء یا صدر صاحبان جماعت ہیں۔ دنیا بھر میں مساجد بن رہی ہیں۔ ہسپتال بنائے جارہے ہیں۔ قرآن پاک کی اشاعت کے لئے پرنٹنگ پریس لگائے جا رہے ہیں۔ خدمت خلق کے ادارے ہیں۔ صحت کے ادارے ہیں۔ تعلیم کے ادارے ہیں۔ تربیت کے ادارے ہیں۔ ضیافت کے شعبے ہیں۔ الفضل ربوہ، الفضل انٹرنیشنل اور بدر کے علاوہ دنیا بھر میں مختلف اخبارات، رسائل اور جریدے ہیں۔ الاسلام کی ویب سائٹ کا ادارہ ہے۔ یہاں برطانیہ میں کل عالم تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے اردو، انگریزی کے علاوہ عربی ڈیسک قائم ہے۔ پھر بنگلہ ڈیسک ہے، رشین ڈیسک ہے، فرنچ ڈیسک ہے، چائینز ڈیسک ہے اور ٹرکش ڈیسک ہے۔ اگر سارے شعبوں کے نام لکھنا شروع کروں تو اس کے لئے ایک الگ فہرست چاہئے ۔یہ تمام ڈیسک، یہ تمام شعبہ جات اپنی اپنی زبانوںمیں قرآن پاک کی تعلیم عام کرنے کے لئے اور احمدی احباب اورساری دنیا کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے حضور انور کی راہنمائی میں مصروف عمل ہی رہتے ہیں ۔ 
…………………
صرف ایک ملک برطانیہ کی مثال لیتے ہیں۔     اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ سر زمین برطانیہ کی   خوش بختی ہے اور جماعت احمدیہ برطانیہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس ملک میں رہائش پذیر ہیں اس لئے اس برکت سے اس اعزاز کی وجہ سے جماعت احمدیہ برطانیہ کے تمام شعبہ جات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی براہ راست راہنمائی میں کا م کرتے ہیں۔یہاں برطانیہ میں ہر لوکل صدر جماعت اور اُس کی مجلس عاملہ کی منظوری بھی حضور انور کی اجازت سے ہوتی ہے اور یہاں کے تمام شعبہ جات مثلاً شعبہ امور عامہ، شعبہ رشتہ ناطہ، شعبہ تعلیم و تربیت، شعبہ تبلیغ غرض ہر شعبہ   براہ راست حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی راہنمائی میں کام کر رہا ہوتا ہے۔ پھر یہاں برطانیہ میں بھی دیگر ممالک کی طرح جہاں بہت بڑے بڑے ادارے ہیں وہیں پہ چھوٹے پیمانے پہ بہت سی ایسوسی ایشنز ہیں۔ مثلاََ ڈاکٹروں کی ایسوسی ایشن ہے ، آرکیٹیکٹ اور انجینئروں کی ایسوسی ایشن ہے، وکلاء کی ایسوسی ایشن ہے، ٹیچرز ایسوسی ایشن ہے، تعلیم الاسلام کالج اولڈ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن ہے۔ اتنے شعبہ جات ہیں کہ ان کی باقاعدہ ایک لمبی فہرست چاہئے۔ہر شعبہ اپنی اپنی ڈاک اپنی اپنی تجاویز اور اپنی رپورٹس ہاتھ میں تھامے حضور انور سے ملاقات کا وقت لے کر ملاقات میں یا بذریعہ خط و کتابت ہدایات لے رہا ہوتا ہے ۔
صرف برطانیہ میں ہی ایسے بہت سے شعبہ جات  ادارے اور تنظیمیں ہیں جن کے انچارج اپنے اپنے جماعتی  کاموں کے لئے اکثرو بیشتر حضور انور سے ملاقات کر کے راہنمائی لینا چاہتے ہیں۔
پھر آپ سب جانتے ہی ہیں جلسہ سالانہ برطانیہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔کہنے کو یہ تین دن کا جلسہ ہوتا ہے لیکن حضور انور کی راہنمائی میں سارا سال اس پہ کام ہوتا ہے اور اس کے منتظمین حضور انور سے ملاقاتیں کر کے ہدایات لیتے رہتے ہیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزمہمانوں کی سہولیات کا خیال رکھنے کے لئے اتنی تفصیل سے انتظامات کا جائزہ لیتے ہیں اورہدایات فرماتے ہیں کہ بتانے والے بتاتے ہیں کہ ہمیں یقین ہوجاتا ہے کہ جلسے پر آنے والا ہر مہمان پیارے حضور کا ذاتی مہمان ہے ۔پھرجلسہ سالانہ کے انعقاد سے ایک ہفتہ قبل آپ ہر شعبے میں جاکے خود انتظامات کا جائزہ لیتے ہیں اور بہتری پیدا کرنے کی ہدایات جاری فرماتے ہیں۔ اُس ایک دن میں حضور مسجد فضل لندن، بیت الفتوح،  ٹلفورڈ اسلام آباد، جامعہ احمدیہ اور جلسہ سالانہ کے مقام حدیقۃ المہدی آلٹن سرے میں تشریف لے جا کے ہر ہر شعبے کا جائزہ لیتے ہیں اور محدود وقت میں اتنی تیزی سے چلتے ہوئے ہر ہر شعبے کا جائزہ لیتے ہیں کہ حضور انور کے ساتھ چلنے والے بعض اوقات شدید تھک جاتے ہیں۔ 
اب دنیا کے دو سو ممالک کے سینکڑوں اداروں کے ہزاروں شعبہ جات کو ہدایات جاری کرنا، ان سے معلومات حاصل کرنا، ان کی تجاویز کا جائزہ لینا اور مختلف پروگراموں اور فلاحی منصوبہ جات کی منظوری عطا فرمانا، ان اداروں کی طرف سے آئی ہوئی رپورٹوں کو ملاحظہ فرمانا، ان تمام کاموں کے لئے روزانہ اگر مختلف اوقات میں دس گھنٹے بھی صرف کئے جائیں تو اس کے لئے چھ سو منٹ درکار ہوسکتے ہیں۔
…………………
ان ساری مصروفیات میں جہاںپیارے حضور    ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اہم شعبوں کو وقت دیتے ہیں وہیںپہ چھوٹے پیمانے کے شعبہ جات بھی براہ راست  حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایات سے فیضیاب ہوتے رہتے ہیں۔ایک مرتبہ خاکسار نے کسی جماعتی کام کے سلسلے میں ملاقات کی درخواست بھجوائی تو  جواب آیا کہ ’’مصروفیت بہت زیادہ ہے انشاء اللہ آئندہ ‘‘ ۔ میں بھی صبر کر کے خاموش بیٹھ گیا۔اُس کے کوئی پانچ ماہ بعد خاکسار ملاقات کے لئے حاضر ہوا ۔ نجانے کیوں لیکن میرا  غالب گمان تھا کہ حضور انور کو اتنی مصروفیات میں کہاں یاد رہا ہو گا کہ کبھی کسی نے فلاں کام کے لئے ملنے کی درخواست بھجوائی تھی۔کمرے میں داخل ہوتے ہی پیارے حضور  ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے ملنے کی درخواست کی تھی اُن دنوں مَیںبہت مصروف تھا لیکن اُس کے بعد آپ آئے ہی نہیں، رابطہ ہی نہیں کیا۔ میرا حال مت پوچھئے۔ حافظ کے اُس شعر کا مفہوم میرے ذہن میں گھوم گیا کہ جب تیرے پیارے کو تیرے دل کے حال کا علم ہے تو کچھ اور آرزو کی ضرورت کیا ہے۔ ہاں اس سوچ میں ضرور پڑ گیا کہ ان پانچ چھ مہینوں میں   کتنے ہی بڑے بڑے عہدوں پر فائزاور عام قسم کے بھی  افراد پیارے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے ملے ہوں گے یا انہوں نے ملنے کی درخواست کی ہوگی۔ حضورانور بیرون ملک دورے پر بھی گئے جہاں بہت سے  لوگوں نے ملنے کی درخواستیں کی ہوں گی یا ملے ہوں گے۔ جرمنی کے جلسہ سالانہ میں بھی شرکت فرمائی تھی جہاں ہزاروں افراد جماعت تھے۔ کتنے ہی اہم منصوبوں پر  بات چیت ہوئی ہوگی ان مصروفیات میں بھی ایک معمولی کارکن، عام فردِ جماعت یاد رہا۔ مَیں اور کیا کہوں سوائے اس کے کہ الحمد للّہ رب العٰلمین۔
…………………
پیارے حضور کے ایک دن کی مصروفیات کی بات ہو رہی تھی۔ ہر شام کو احمدی افراد اپنے پیارے محبوب امام حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز سے ملاقات اور دیدار کا شرف بھی حاصل کرتے ہیں۔ اگر ملاقات کی عام اجازت ہو تو شائد مسجد فضل لندن کی اردگرد کی گلیوں میں ٹریفک کا نظام مشکل کا شکار ہو جائے اور یہاں وانڈز ورتھ کی ساری ٹریفک پولیس کو صرف ان گلیوں میں ہی تعینات کر دیا جائے ۔ محدود وقت کے باعث اورسب کو برابر موقع دینے کے لئے ہر روز شام کو عام طور پہ کوئی بیس کے قریب خاندان یا انفرادی طور پر احباب حضرت     امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کا شرف بھی حاصل کرتے ہیں ۔اگر ایک خاندان میں اوسطاً تین افراد بھی ہوں تو کوئی پچاس ساٹھ افراد روزانہ ملاقات کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ان ملاقاتوں کے لئے اندازاً ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ مختص ہوتا ہے ۔ اگر ملاقاتیوں کی تعداد پر وقت کو تقسیم کیا جائے تو ایک ملاقاتی کے لئے ایک منٹ بھی نہیں مل سکتا۔ بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو بصد عقیدت و احترام اپنے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی زیارت کے لئے ہزاروں میل کے فاصلے طے کر کے ملاقات کے لئے آئے ہوتے ہیں۔ بہت سے ایسے  ہوتے ہیں جو اپنی کسی ایسی پریشانی کا اظہار حضور انور کے ساتھ کرنے آئے ہوتے ہیں جو وہ پوری دنیا میں کسی اور سے نہیں کر سکتے۔ بہت سے ایسے طلباء ہوتے ہیں جو اپنے مستقبل کے لئے راہنمائی حاصل کرنے آئے ہوتے ہیں۔ بہت سے والدین اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے    حضور انور سے دعائیںاور راہنمائی حاصل کرنے کے لئے آئے ہوتے ہیں۔ بہت سے ملاقاتی ایسے ہوتے ہیں کہ خود  اُن کی یا اُ ن کے بزرگوں کی دین کے لئے بہت خدمات اور قربانیاں ہوتی ہیں اور ایسے خوش نصیبوں کو بعض اوقات زیادہ وقت بھی مل جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے اور محبوب امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو صحت و شفایابی والی عمر دراز عطا فرمائے آپ آنے والے ہر ملاقاتی کو اُٹھ کے ملتے ہیں اور ملاقاتی کے جاتے ہوئے بھی اپنی کرسی سے اُٹھ کے الوداع کہتے ہیں۔ ہر ملنے والے کی دلداری فرماتے ہیں اور سبھی محبتوں اور دعائوں کی دولت سمیٹے ہوئے دمکتے ہوئے چہروں کے ساتھ رخصت ہوتے ہیں۔ آجکل یہاں برطانیہ میںنماز فجر کوئی ساڑھے چار بجے کے قریب ہوتی ہے اور نماز عشاء نوبجے رات۔ کوئی سولہ سترہ گھنٹے کا دورانیہ بنتا ہے ۔ اتنی صبح کے جاگے ہوئے پیارے حضور اوسطاً پندرہ سو خطو ط ملاحظہ کرنے کے بعد، بڑے بڑے منصوبوں کی تفصیلات جانتے ہوئے ہدایات جاری کرنے کے بعد، تمام دفتری ملاقاتوں کے بعد، دنیا بھر سے آئی ہوئی غم اور خوشی کی خبروں کو سننے اور ہدایات جاری کرنے کے بعد، جب شام  سات آٹھ بجے ہر ملاقاتی کو فرداً فرداًاپنی کرسی سے اُٹھ کے ملتے ہیں تو جہاں ہمارے دل باغ باغ ہو جاتے ہیں وہیں دل چاہتا ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے   بصد ادب و احترام ہاتھ جوڑ کے درخواست کی جائے کہ حضور آپ ہمارے آنے پہ تشریف فرما ہی رہا کریں آپ کو دیکھ کے ہی ہماری عید ہو جاتی ہے ۔ ان ملاقاتیوں کی محبتوں کے اپنے اپنے انداز ہوتے ہیں اور پیارے حضور       ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہر قوم ہر ثقافت اور ہر لب و لہجے کے ملاقاتیوں سے مل کے اُ ن کے ماحول اور مزاج کے مطابق اُن کی دلداری فرماتے ہیں۔ ملاقاتیوں کے مزاج  اور محبتوں کے انداز اور فرمائشوں کو دیکھ کے کوئی بھی زیرک انسان حضور انور کی شفقت کے ساتھ ساتھ ضبط اور حوصلے کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔
…………………
امام وقت سے اپنی عقیدتوںکا، محبتوںکا،آپ کی دعائوں کی قبولیت کااظہار، اپنے اپنے رنگ میں کرنے والے جہاں زیادہ تر بڑے دانشور قسم کے لوگ ہوتے ہیں وہیں پہ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو پیارے حضور کو کہنے کچھ گئے ہوتے ہیں اور عرض کچھ اور کر آتے ہیں۔
ایک صاحب ملاقات کے بعد باہر آئے تو اپنے آپ کو گریبان سے پکڑ کے جھنجوڑ رہے تھے۔ پوچھنے پر کہنے لگے مجھے اُ ردو کے بڑے بڑے لفظ بولنے کا شوق لے بیٹھا ہے ۔ پیارے حضور نے دریافت فرمایا تھا کہ کیسے آنا ہوا ۔ کہنا یہ تھا کہ بس اس لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ کی زیارت کا موقع مل جائے لیکن کہہ آیا ہوں اس لئے حاضر ہوا ہوںکہ آپ کو زیارت کا موقع مل جائے۔ کہنے لگے کہ میر ی بات پر حضور بہت مسکرائے تھے۔ اُس وقت سمجھ نہیں آیا لیکن اب سمجھ آئی ہے کہ آپ کیوں مسکرائے تھے ۔ پھر کئی ملاقاتی  میری طرح کے ہوتے ہیں حضور انور کا موڈ دیکھے بغیر کہتے ہیں حضور ایک تا زہ غزل پیش خدمت ہے۔ کئی ایسے بھی ہوتے ہیں جو باادب رہتے ہوئے، شُستہ اردو بولنے کی آرزو میں عقیدت میں کہہ دیتے ہیں ’’حضور مَیں ابھی کل ہی تشریف لایا ہوں‘‘۔ایک صاحب ملاقات کرنے گئے واپسی پہ کمرے سے نکلتے نکلتے کہہ گئے حضور دعا کی عاجزانہ درخواست ہے میر ابڑا بیٹا قید ہوگیا ہے۔ ملاقات کے بعد حضور انور نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو فوراً ہدایت فرمائی کہ ان کے بیٹے کا پتا کروائیں کیوں قید ہوا ہے۔ تحقیق پر پتا چلا کہ اللہ کے فضل سے اُن کا بیٹا اپنے حلقے کا قائد بن گیا ہے۔ وہ قائد کو قید کہہ رہے تھے تو پیارے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسکراتے ہوئے مختلف زبانوں، مختلف لہجوں، مختلف استعدادوں، مختلف مزاجوں اور مختلف ثقافتوں والے ان سب ملاقات کرنے والوں سے ایسی شفقت اور محبت سے ملتے ہیں، ایسی دلداری فرماتے ہیں کہ چھوٹے بڑے سبھی دمکتے چہروںاور شاداب روح کے ساتھ واپس آتے ہیں۔ پنجابی زبان والوں سے پنجابی میں۔ انگریزی دانوں سے انگریزی میں اور اردو بولنے والوں سے اردو میں گفتگو فرماتے ہیں۔ اس ایک ڈیڑھ گھنٹے میں ملنے والوں کی سینکڑوں چھوٹی چھوٹی خواہشات ہوتی ہیں جنہیں  حضور انور کمال خندہ پیشانی سے پورا فرماتے جاتے ہیں۔ سب بچوں کو تو چاکلیٹ ملتا ہی ہے کئی بڑے بھی فرمائش کرکے اپنی پسند کا چاکلیٹ طلب کر رہے ہوتے ہیں۔ کسی کو تبرکاً پین کا تحفہ ملتا ہے تو کوئی حضور انور کے ساتھ تصویر بنانے کی درخواست کرتاہے۔کمرے سے نکلتے نکلتے بھی فرمائشیں ہورہی ہوتی ہیں اور پیارے حضور مسکراتے ہوئے سب کی خواہشیں پوری فرماتے جاتے ہیں۔ 
…………………
پھر ہر جمعہ کے روز پیارے حضور تقریباً ایک گھنٹہ کھڑے ہو کے خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہیں جبکہ ہم سننے والے بیت الفتوح یابیت الفضل کے نرم و گداز قالین پر بیٹھ کے سنتے ہیں یا دنیا کے دیگر ممالک کی احمدیہ مساجد میں یا گھروں میں احباب آرام سے بیٹھ کے سنتے ہیں۔ایک مرتبہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مصروفیات کے حوالے سے محترم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے بات ہو رہی تھی آپ نے بتایا ہر جمعہ کے لئے  حضور انور خطبہ جمعہ تو خود ہاتھ سے تحریر فرماتے ہی ہیں اس کے علاوہ سارا ہفتہ اس کے لئے نوٹس بھی خود لکھتے جاتے ہیں اور قرآن پاک سے اور احادیث سے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے حوالہ جات بھی زیادہ تر خود تلاش کر کے تحریر فرماتے جاتے ہیں۔پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے بتایا کہ بہت مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمیں خطبہ کے مضمون کا تو کیا موضوع تک کا بھی علم نہیں ہوتا اور حضور انور جمعہ کے روز مسجد فضل سے بیت الفتوح تشریف لے جاتے ہوئے بھی خطبہ کے لئے نوٹس تحریر فرماتے جاتے ہیں۔ 
معزز قارئین! اگر ہم خطبات کے مضامین کو غور سے پڑھیںتومعلوم ہوگا کہ کس طرح پیارے حضور افرادجماعت  سے پیار کرتے ہیں اور ہماری دین و دنیا میں کامیابی کے لئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کیسے ہر وقت نصائح فرماتے رہتے ہیں۔ کیسے پیارے حضور کی آرزو ہے کہ ہمارے دلوں میں ہمارے گھروں میں ہماری گلیوں میں ہمارے شہروں میں اور پوری دنیا میں امن ہو اور ہماری زندگیا ں جنت نظیر ہو جائیں اور ہم اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں میں شامل ہوجائیں۔
بہت عرصہ غالباً آٹھ سال پہلے کا ایک واقعہ ہے کہ میں پروگرام انتخاب سخن کر کے سٹوڈیو سے باہر نکلا تو فون کالز لینے والے نوجوانوں میں سے ایک نے بتایا کہ کوئی غیر از جماعت خاتون بضد ہے کہ پریزنٹر سے ہی بات کرنی ہے اور وہ بڑی دیر سے فون ہو لڈ کروا کے بیٹھی ہے۔ بہرحال اُس سے بات ہوئی۔ اُس کا کہنا تھا کہ میرے خاوند نے مجھے سختی سے کہا ہو ا تھا کہ ایم ٹی اے نہیں دیکھنا۔ اُس کے اس طرح سختی سے روکنے کی وجہ سے مجھے تجسّس ہوا اور اب میں چھپ کے آپ کے حضور کی باتیں سنتی ہوں اور میرا دل گواہی دیتا ہے کہ آپ کی جماعت ہی سچی جماعت ہے۔ میری طرف سے خلیفہ حضور کو کہنا کہ آپ کی عقیدت مند ایک بیٹی فلاں شہر میں بھی رہتی ہے اُسے بھی دعائوں میں یاد رکھیں۔ ا ُس نے با اصرار کہا کہ جیسی آپ کے خلیفہ باتیں کرتے ہیں اگر ساری دنیا ان باتوں پر عمل کرے تو دنیا ایک جنت نظیر خطہ بن جائے۔ اُس نے کہا کہ وہ حضور کی باتیں سن کے دل سے احمدی ہو چکی ہے لیکن اپنے خاندان والوں کے خوف سے ایسا نہیں کہہ سکتی اور ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ آپ یقین رکھیں کہ ہر پڑھا لکھا شخص جو آپ کے خلیفہ کی باتیں سنتا ہے وہ اُن کی باتوں سے متفق ہے لیکن زمانے کے خوف سے خاموش ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پیارے حضور کے خطبات نہ صرف ہمارے لئے بلکہ سب سننے والوں کے لئے سکینت کا باعث بنتے ہیں۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے ہر خطبے کا لُبّ لباب یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت بیٹھ جائے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت دلوں میں گھر کرلے اور پوری دنیا میں آپؐ کی عظمت کا جھنڈا بلند ہو اور مسیح زمانہ کی محبت دلوں میں ایسے رچ بس جائے،  ہمارے دلوں میں تقوی اس طرح پیدا ہوجائے کہ ہم دنیا و آخرت میں کامیاب ہوجائیں۔ پیارے حضور جس طرح ہر خطبے میں قرآن پاک کے حوالوں سے، احادیث کے حوالوں سے ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تحریرات کے حوالے سے بار بار ہمیں عاجزی، خاکساری، درگزر اور احسان کے سلوک کا درس دیتے ہیں۔ ہر دم، ہر آن، ہر تحریر، ہر خطبے میں پیارے حضور کی خواہش ہوتی ہے کہ ہماری زندگیاں آسان بن جائیں اور ہم اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں میں شامل ہو جائیں۔  
     حضور انور کا  ہر ہر خطبہ جمعہ دراصل دنیا بھر سے دوران ہفتہ ملنے والے ہمارے ہزاروں خطوط کا ،ہزاروں سوالات کا جواب ہوتا ہے اور ہزاروں دنیاوی مسائل کا حل ہوتا ہے اور دائمی کامیابیاں پانے کا نسخہء کیمیا ہوتا ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ ادھر کسی مفلوک الحال درویش صفت احمدی نے حضور انور سے مل کے یا خط کے ذریعے ذکر کیا کہ فلاں ملک کے جلسے میں مجھے کھانا ٹھیک طرح نہیں ملااور اگلے خطبے میں حضور انور پوری دنیا کے احمدیوں کو مہمانوں کی خدمت کا حق ادا کرنے کی نصیحت فرما رہے ہوتے ہیں۔ دنیا کے کسی دُوردرازکے ملک سے کوئی مصیبت زدہ لکھتا ہے کہ فلاں ادارے میں فلاں صاحب نے مجھ سے تعاون نہیں کیا اور حضور انور خطبہ جمعہ میں دنیا بھر کے دفاتر میں کام کرنے والوں کو عاجزی کی نصیحت فرماتے ہیں اور یہ کہ دفتر میں آنے والے افراد سے کرسی سے اُٹھ کے ملنا چاہئے اور ہر ممکن مدد کرنی چاہئے۔ 
ہم سب اس بات کے گواہ ہیں کہ حضور انور کے خطبات ہماری عام روزمرہ کی زندگیوں، رہن سہن اور  معاملات سے متعلق ہوتے ہیں اور عام آدمی کی سمجھ کے مطابق ہوتے ہیں۔
ایک نئے احمدی سے پوچھا کہ احمدیت کیسے قبول کی؟ کہنے لگے ٹی وی پر چینل بدلتے ہوئے حضور انور کا خطبہ جمعہ سنا تو مَیں تو حیران رہ گیا اور مجھے لگا کہ وہ میرے سب حالات جانتے ہیں اور میری تربیت کے لئے صرف اور صرف مجھے سمجھا رہے ہیں۔ خطبہ سننے کے بعد مَیں نے کوئی کتاب نہیں پڑھی، کوئی دلیل نہیں مانگی ایک احمدی دوست کو کہا مجھے بیعت فارم لادو اور خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدی ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارشیں دیکھی ہیں۔
اسی طرح جلسہ سالانہ برطانیہ کے دنوں میں ایک دوست سے ملاقات ہوئی جنہوں نے حضور انور کے خطبات سن کے احمدیت قبول کی تھی۔ کہنے لگے کہ میں امریکہ میں اپنے وطن کا پاسپورٹ بنوانے کے لئے اپنے ملک کی ایمبیسی میں گیا ۔ وہاں پاسپورٹ فارم پہ سب دستخط کرکے جب فارم ان کے حوالے کیا تو ایمبیسی والے کہنے لگے کہ آپ نے اس اقرار نامے پر دستخط نہیں کئے۔ اب یہ دوست بہت پڑھے لکھے اور ہر چیز کو عقل اور منطق کی کسوٹی پر پرکھنے والے تھے۔ کہنے لگے کہ جس شخص کے متعلق آپ کہہ رہے ہیں کہ تصدیق کروں کہ مَیں ان کو سچا نہیں مانتا مَیں نے تو ان کا نام ہی پہلی دفعہ سنا ہے اور مَیں ان کو جانتا ہی نہیں ہوں، مَیں کیسے دستخط کر کے تصدیق کروں کہ فلاں شخص سچا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا دستخط کے بغیر پاسپورٹ نہیں مل سکتا۔ یہ فارم لے کے گھر آئے اور جاننے والوں سے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے۔ پوچھتے پوچھتے جماعت کی کتابیں پڑھنے لگے اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبات سننے لگے۔ پوری تحقیق کے بعد ایمبیسی گئے۔ انہوں نے پوچھا اب دستخط کر دئیے ہیں۔ کہنے لگے مَیں نے اُس جگہ دستخط تو نہیں کئے، الحمد للہ مَیں نے احمدیت قبول کرلی ہے ۔                                                                  
  قارئین کرام! پیارے حضور سینکڑوں خطوط کے جوابات دینے کے ساتھ ساتھ، سینکڑوں انتظامی امور کی دیکھ بھال فرماتے ہوئے روزانہ بہت سی دفتری اور انفرادی ملاقاتوں کے ساتھ اور دیگر تمام تر مصروفیات کے ساتھ ساتھ ہم سب کے لئے ہر خطبہ جمعہ اتنی محنت سے لکھتے ہیںتو ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ہم اسے ایسے سنیں گویا پیارے حضور صرف اور صرف ہم سے مخاطب ہیں اور صرف اور صرف ہمیں نصیحت فرما رہے ہیں۔حضور انور کی مصروفیات اس قدر ہیں کہ حضور کے تھوڑے کہے کو ہی زیادہ سمجھنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے آمین۔                                                                       
  خطبہ جمعہ کے دوران جو کاغذات ہم حضور انور کے  مبارک ہاتھوں میں دیکھتے ہیں وہ حضور انور کے خود اپنے ہاتھوں سے لکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ حوالہ جات یعنی  قرآن پاک کی آیات ،احادیث مبارکہ اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات وغیرہ بعض اوقات  ٹائپ یا فوٹو کاپی کی صورت میں ہو سکتے ہیں۔ اور جیسا کہ محترم منیر جاوید صاحب نے بتایا تھا کہ حضور انور تو خطبہ جمعہ کے لئے بیت الفتوح جاتے جاتے بھی نوٹس لکھ رہے ہوتے ہیں۔ قارئین کرام! ہر خطبے اور ہر خطاب میں پیارے حضور کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمیں حقیقی اور دائمی خوشیاں نصیب ہوجائیں۔ ابھی حال ہی کے خطبہ عید کو غور سے سنیں۔ پیارے حضور کے ایک ایک لفظ سے ایک ایک فقرہ سے کیسے اس خواہش کا اظہار چھلکتا ہے کہ ہمیں حقیقی عیدیں نصیب ہوں، ہماری زندگیاں جنت مثال بن جائیں۔ ہماری یہ زندگی بھی جنت  بن جائے اور آخرت میں بھی ہم سرخرو ہوں۔ کیسے حضور کو فکر ہے کہ کہیں ہم عارضی عیدوں کی مصروفیات میں حقیقی عیدوں سے غافل نہ ہو جائیں۔ 
…………………
قارئین کرام! آپ بہتر طور پر جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہر ملک کے اور ہر قوم کے احمدی    حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی صحبت سے یکساں فیض پاتے ہیں۔ پچھلے دنوں ملک شام کے ایک شامی احمدی بھائی کے ساتھ نشست کا موقع ملا۔ اُن کی باتیں سن کے حیرانی ہوئی کہ وہ تو اپنی زندگی کا ایک ایک قدم اور ایک ایک فیصلہ حضور انور کے مشورہ سے کرتے ہیںاور حضور انہیں، ان کے بچوں کو، ان کے بھائیوں کو ناموں سے جانتے ہیں اور ان سب کا ماننا تھا کہ جتنا حضور انہیں وقت دیتے ہیں شائد ہی کسی کو دیتے ہوں۔یہی حال عربی بھائیوں کا ہے۔ ان  کے پاس بیٹھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضور کی تمام تر توجہ کا مرکز وہی ہیں اور یہی حال ہر خطّے کے لوگوں کا ہے۔
اب یہ جو ساری مصروفیات لکھی ہیں اگران کے وقت کو جمع کیا جائے تو سرسری نگاہ سے صرف خط دیکھنے کے لئے بھی پندرہ سو منٹ بنتے ہیں جبکہ ایک دن رات میں کل چودہ سوچالیس منٹ ہوتے ہیں۔ حضور انور کی مصروفیات اور  ایک دن میں ہونے والے کام کوئی عام انسان ایک ہفتے میں بھی احسن طریقے سے سر انجام نہیں دے سکتا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں
صاف دل کو کثرت اعجاز کی حاجت نہیں 
اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہو خوف کردگار
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز کی ایک دن کی ڈائری دیکھ کے ہی کوئی بھی سعید فطرت شخص اس بات کی گواہی دے گا کہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے بغیر یہ سب ممکن ہی نہیں ہے ۔
…………………
اوپربیان کی گئی ساری مصروفیات کے علاوہ مختلف تنظیموں کی طرف سے منعقد کی گئی تقریبا ت میں شرکت اور خطابات الگ ہیں۔مساجد کے سنگ بنیادرکھنے اور افتتاح کرنے الگ ہیں۔مختلف ممالک کے دورہ جات اور جلسوں اور پروگراموں میں شرکت الگ ہے۔ برطانیہ میں جو  بڑی بڑی تقریبات منعقد ہوتی رہتی ہیں وہ الگ سے ہیں۔ احمدی احباب سے ملاقات کے علاوہ جو دنیا بھر سے غیر از جماعت مہمان یا صحافی ہیں اُن کو جو وقت دیا جاتا ہے وہ الگ سے ہے۔
برطانیہ میں ایک  جلسے کے بعد مَیں کسی انگریز صحافی کو اُس کے گھر تک چھوڑنے جا رہا تھا راستے میں باتوں باتوں میں مجھے کہنے لگا کہ ہر چند کہ مَیں ایک پختہ عقیدہ رکھنے والا عیسائی ہوں لیکن آ پ کے امام جماعت سے مل کے اور اُن کی مصروفیات کو دیکھ کے میں یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ کوئی روحانی قوت ان کی مدد کر رہی ہے۔میری سمجھ سے بالا ترہے کہ کروڑوںافراد کی جماعت میں سے ہر کوئی دعوی کر رہا ہے کہ میرے امام مجھے جانتے ہیں ۔ اُس کا کہنا تھا کہ اُس کے بیس سالہ دور صحافت میں اُس نے کبھی اتنا بڑا اجتماع اتنا منظم نہیں دیکھا اور اطاعت کا ایسا نظارہ نہیں دیکھا۔ میرے بتانے پر کہ ہمارے امام کو روزانہ بذریعہ ڈاک اور فیکس کوئی پندرہ سو کے قریب خطوط ملتے ہیں اور روزانہ ان پندرہ سو خطوط کے جوابات فرداََ فرداََ خط لکھنے والوں کے گھر بھجوائے جاتے ہیں۔ کہنے لگا اب آپ یقینا مذاق کر رہے ہیں۔
قارئین! آپ اور مَیں جانتے ہیں کہ یہ کوئی مذاق نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ 
آج سے کوئی پانچ چھ سال پہلے کی بات ہے  خاکسار اور مکرم سید حسن خان صاحب کسی اخبار کے لئے مکرم و محترم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت احمدیہ یوکے کا تفصیلی انٹرویو کرنے اُن کے گھر پہنچے۔ محترم امیر صاحب نے خلافت کی برکات کے بہت سے پہلوئوں کا ذکر کیا اور اس کے ساتھ ایک بات کا بار بار شدّت سے اظہار کیا۔ آپ کا کہنا تھا کہ مجھے آج تک ایک بات بالکل بھی سمجھ نہیں آئی کہ بعض خوشخبریاں صرف مجھے معلوم ہوتی ہیں اور میری شدید خواہش ہوتی ہے کہ میں فوری طور پہ خود جا کے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو اطلاع کروں لیکن حیرت انگیز طور پر حضور انور کو اس بات کا پہلے سے علم ہوتا ہے حالانکہ وہ بات میں نے کسی کو بھی نہیں حتی کہ حضور کے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو بھی نہیں بتائی ہوتی۔امیر صاحب کے اس انٹرویو کو کئی سال گزر گئے لیکن امیر صاحب کی یہ بات مجھے بطور خاص یاد رہ گئی ۔ ایک روزاتفاقاً میری ملاقات مکرم منیر جاوید صاحب پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے اُن کے دفتر میں ہوئی ۔ وہ سر جھکائے ساتھ ساتھ حسب ِ معمول خطوط کو ترتیب سے مختلف فائلوں میں لگا رہے تھے۔ ساتھ ساتھ مختلف فون کالز بھی اٹینڈ کررہے تھے۔ مَیں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے فوراً اُن سے اس واقعہ کا ذکر کیا کہ ایک مرتبہ مکرم امیر صاحب رفیق حیات صاحب نے کہا تھا کہ پتا نہیں کیسے لیکن جو بھی بات مَیں حضور انور کو بتانے جاتا ہوں وہ حضور کو پہلے سے ہی معلوم ہوتی ہے۔ یہ بات سن کے مکرم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب بے اختیار کھلکھلا کے ہنسے اور ساری مصروفیات چھوڑ کے میری طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے کہ آپ کو ایک بات بتائوں۔ مَیں بہت خوش ہوا کہ مجھے راز بتانے لگے ہیں۔ کہنے لگے یہی بات تو مجھے خود آج تک سمجھ نہیں آئی کہ یہ کیسے ہو جاتا ہے۔ میرے ساتھ بھی بہت مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ مَیں حضور انور کو کوئی اطلاع دینے جاتا ہوں کہ حضور فلاں ملک سے اطلاع آئی ہے اور اس سے پہلے کہ مَیں کچھ اَور کہوں حضور انور بتا دیتے ہیں کہ مجھے علم ہے یہ بات ایسے ایسے ہوئی ہے۔ محترم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کا کہنا تھا ہم تو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نشان اور خلیفہ وقت اور جماعت کے افراد میں محبتوں کے اور دلی تعلق کے نظارے ہر روز اور ہر وقت دیکھتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے کہ خلیفہ وقت کا جماعت کے ساتھ دل و جان سے محبت کا ایسا رشتہ ہے، ایسا روحانی اور قلبی تعلق ہے کہ اللہ تعالیٰ مختلف ذرائع سے حضور انور کو دنیا بھر کے احمدیوں کے حالات سے خود ہی باخبر رکھتا ہے۔                                                                            
…………………
ایم ٹی اے انٹر نیشنل کا کارکن ہونے کے ناطے مجھے علم ہے کہ ایم ٹی اے کے تمام شعبے حضور انور کی براہ راست راہنمائی میں کام کرتے ہیں۔ اتنی مصروفیات کے باوجود پیارے حضور ہر شعبہ کے منتظمین کو اتنی تفصیل سے ہدایات جاری فرماتے ہیں اور ایسی باریک بینی سے تفصیلات کا جائزہ فرماتے ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کی حمد کئے بغیر نہیں رہ سکتا جس نے ہمیں خلافت جیسی نعمت سے نوازا ہے۔
ایم ٹی اے کے بہت سے پروگراموں میں سے انتخاب سخن بھی ایک پروگرام ہے۔اس پروگرام میں بہت سے احمدی احباب وخواتین بچے بچیاں اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ پیارے حضور کو اُن کی طرف سے السلام علیکم کہا جائے۔پیارے حضور نے یہ ہدایت فرمائی ہوئی ہے کہ جو مجھے السلام علیکم کا پیغام بھجوائیں انہیں میر ی طرف سے وعلیکم السلام کہہ دیا کریں۔ خاکسار ہر پروگرام میں بغیر بھولے حضور انور کے ارشاد کی تعمیل میں اس ہدایت پر عمل کرتا ہے۔ ایک پروگرام میں، مَیں یہ کہنا بھول گیا۔ مَیں دعا کر رہا تھا کہ یا اللہ! حضور نے یہ پروگرام نہ دیکھا ہو۔ اُس کے تھوڑے دنوں بعد محمود ہال مسجد فضل لندن میں کسی تقریب میں خطاب کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز واپس تشریف لے جارہے تھے۔ مَیں بھی ہجوم میں کھڑا تھا۔ پیارے حضور انور میرے قریب آئے اور مسکراتے ہوئے فرمایا پچھلے پروگرام میں آپ نے میری طرف سے و علیکم السلام نہیں کہا، یادسے کہا کریں۔ حضور انور یہ فرما کے آگے تشریف لے گئے ۔ مَیں گم سم حیران و ساکت کہ حضور انور کی اتنی مصروفیا ت اور ایک چھوٹے سے پروگرام پہ اتنی نظر اور شفقت اور ایم ٹی اے کے ناظرین کا اتنا خیال ؎
’ اے چھائوں چھائوں شخص تری عمر ہو دراز‘
حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی از حد مصروفیات کا ذکر ہو رہا ہے ۔ ہم نے ایسے وقت بھی دیکھے ہیں کہ ادھر کسی بہت پیارے کا نماز جنازہ پڑھایا ہے اور پھر کچھ دیر کے بعد کسی بچی یابچے کے نکاح کا اعلان ہورہا ہے کیونکہ اُن کی اس تقریب کی منظوری انہوں نے شائد ہفتوں مہینوں پہلے سے لے رکھی ہو۔ 
ہم نے ایسے وقت بھی دیکھے ہیں کہ جب لاہور میں ایک ہی دن میں اسّی نوے معصوم احمدیوں کو خون میں نہلا دیا گیا لیکن اُس روز بھی ایم ٹی اے کے ذریعے دنیا بھر کے  لوگوں نے یہ منظر دیکھا کہ آپ کی آنکھوںپہ ضبط کے    بے مثال پشتوں نے سینے میں غم کے چھلکتے ہوئے سمندر کا ایک قطرہ بھی باہر نہیں آنے دیا ۔
ہم نے وہ دن بھی دیکھے ہیں جب پیارے    حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی والدہ محترمہ کی وفات کی المناک خبر کی اطلاع دیتے ہیں اور نماز جنازہ پڑھاتے ہیںاورپھر اگلے روزہی تمام تر دفتری مصروفیات میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔ 
ہم نے وہ دن بھی دیکھا ہے کہ جب پیارے حضور اپنے اکلوتے بیٹے مکرم و محترم صاحبزادہ مرزا وقاص احمد صاحب کی شادی میں شریک ہوتے ہیں بالکل اُسی طرح جیسے کسی اور کارکن کے بچے کی شادی میں شریک ہوتے ہیں۔ دن بھر کی دفتری مصروفیات کے بعد جب شادی کی تقریب میں تشریف لائے تو اُتنا ہی وقت تشریف فرما رہے جیسا کہ معمول کے مطابق ہوتا ہے ۔
ہر روز نئے فکر ہیں ہر شب ہیں نئے غم
 یا رب یہ مرا دل ہے کہ مہمان سرا ہے
چونکہ ساری جماعت احمدیہ ایک خاندان کی طرح ہے اس لئے آئے دن کسی نہ کسی پیارے کی رحلت کی یا شہادت کی المناک خبر بھی ملتی ہے لیکن پیارے حضور یہ سب غم سینے میں چھپائے ہم سب کے غم بانٹنے میں مصروف رہتے ہیں اور ہمیں مسکرا کے ملتے ہیں ۔
…………………
پیارے بھائیو! ہمارے پیارے حضور ہمارے لئے کیا کچھ نہیں کرتے ۔کیا ہمارا فرض نہیں بنتا کہ ہم اپنی ہر نماز میں اور ہر دعا میں اپنے پیارے آقا ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو یاد رکھیںاور اپنے قول سے اور اپنے کردارسے یہ ثابت کریں کہ ہم اپنے محبوب امام سے پیار کرنے والے ہیں اور آپ کے ارشادات پر دل و جان سے لبّیک کہنے والے ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مصروفیات اس قدر ہیں کہ اگر ہماری درخواست پر پیارے حضور ہماری کسی تقریب میں یا ہماری خوشیوں میں مثلاً ہمارے بچوں کی شادیوں وغیرہ میں شریک نہ ہوں سکیں تو ہر گز ہر گز دل گرفتہ نہیں ہونا چاہئے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہفتوں مہینوں بلکہ بعض معاملات میںسالوںپہلے سے حضور کی روزانہ کی مصروفیات اورپروگرام طے شدہ ہوتے ہیں۔ ملاقاتی ہزاروں میل کے فاصلے طے کر کے آئے ہوتے ہیں۔ ہر روز ایک نہیں بلکہ بہت سی ایسی درخواستیں اور دعوتیں ہوتیں ہیں جن سے پیارے حضور کو بڑے بوجھل دل سے شرکت سے معذرت کرنی پڑتی ہے۔ میں نے ایسی بہت سی شادیوں میں شرکت کی ہے کہ جہاں شادی والے بچے یا بچی کے والدین کی جماعت کے لیے بڑی لمبی نمایاں خدمات ہیں اور نمایاں مقام ہے لیکن پیارے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بوجہ دیگر مصروفیات شریک نہ ہوئے ۔
حقیقت میں بات تو یہ ہے کہ پیارے حضور جو ہر جمعہ کے روزایک گھنٹے کے لئے خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہیں وہ ہمارے لئے ہی تو ہوتا ہے۔ حضور ہمیں ہی تو وقت دیتے ہیں۔ ہم سے ہی تو گفتگو کرتے ہیں۔ ہم سے ہی تو ملاقات کرتے ہیں۔ اور ہماری بھلائی اور فائدے کی ہی تو باتیں کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں جو مساجد، مشن ہائوس اور دیگر فلاحی منصوبے ہیں وہ ہمارے لئے اور ہماری نسلوں کے لئے ہی تو ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر وقت پیارے حضور کو اپنی دعائوں میں یاد رکھیں اور دعا کے لئے ہمیشہ انہیںخط لکھتے رہیں۔ خطوط میں جہاں ہم اپنی عارضی دنیاوی مشکلات کا ذکر کرتے ہیں وہیں پہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا ذکر بھی حضور سے کرتے رہیں۔ خدا کرے کہ ہم  ہمیشہ حضور کو خوش خبریاں دینے والے ہوں۔ ویسے بھی ہم احمدیوںپر اللہ تعالیٰ کے جتنے فضل ہیں وہ بھی بیان سے باہر ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا وہ شعر
اک قطرہ اُس کے فضل نے دریا بنا دیا
مَیں خاک تھا اُسی نے ثریّا بنا دیا
ہر احمدی پر کسی نہ کسی رنگ میں ضرورپورا اُترتا ہے۔ تو ہمیں اپنے خطوں میں ان فضلوں کا، برکتوں کا اور خوشخبریوں کا  بھی لازمی طور پہ ذکر کرنا چاہئے ۔ 
…………………
یہاں پہ مَیں اپنے مضمون کو ختم کرتا ہوں۔ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مصروفیات کا تذکرہ ایک مضمون میں کرنا ناممکن ہے بلکہ شائد ایک کتاب بھی کم ہے۔ ویسے بھی اس مضمون میں صرف روزمرہ کی مصروفیات کا مختصر طور پہ ذکر ہے۔دیگر مصروفیات الگ سے ہیں۔ دنیا بھر کے تمام احمدیوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ خلیفۂ وقت کے پاس جا کے ملاقات کا شرف حاصل کریں لیکن سب کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے اس لئے  حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جہاں جہاں ممکن ہو وہاں پہنچ کے احمدیوں سے ملتے ہیں اور اُن کے حالات جانتے ہیں۔ مَیں بیرون ممالک دورہ جات کی بات کررہا ہوں۔ برطانیہ سے سنگاپور، نیوزی لینڈ ، جاپان اور آسٹریلیا  جانا آسان نہیں ہوتا۔ قارئین میں سے جو جہاز سے سفر کرتے رہتے ہیںوہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ یہ سفر بڑا تھکا دینے والا ہوتاہے۔لندن سے سڈنی آسٹریلیا  کوئی چھبیس گھنٹے کی فلائٹ ہے۔                                                                                      
اللہ تعالیٰ قدم قدم پہ ہمارے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا حافظ و ناصر ہو۔ آپ کو صحت و شفایابی والی عمر درازعطا فرمائے۔ پوری دنیا میںاسلام احمدیت کاغلبہ ہو۔ خدا کرے کہ ہم حضور انور کے تھوڑے کہے کو ہی بہت سمجھنے والے ہوں۔اللہ تعالیٰ ہمیں امام وقت ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی حقیقی معنوں میں اطاعت کی توفیق دے۔ سچی محبت اور بے مثال پیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 
مَیں دنیا کے ایسے ملک بھی دیکھ آیا ہوں جہاں ملک کے ممبران پارلیمنٹ بھی عام بسوں میں سفر کرنے کے لئے لائن میں کھڑے ہوتے ہیں اور لبنان اور اسرائیل کے بارڈر بھی دیکھ آیا ہوں جہاں دس دس سال کے بچے سکول اس طرح جا رہے تھے کہ بستے کے ساتھ کلاشنکوف بھی گلے میں لٹکائی ہوئی تھی۔دنیا کے آزاد ترین ملک بھی دیکھ لئے ہیں اور دمشق کے تہہ خانوں میں چالیس دن قید کاٹ کے وہاں کے زندانوںمیں زندہ انسانوں کے ڈھانچے بھی دیکھ کے آیا ہوں۔ مَیں پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ آج اگر پوری دنیا میں امن اور انصاف کی کوئی ضمانت ہے تو وہ خلافت احمدیہ ہی ہے۔ دنیا ایک نہیں درجنوںنئے نظام بنا لے، درجنوں تِھنک ٹینک بنا لے، الٰہی نوشتوں کو نہیں بدلا جا سکتا۔ اگر دنیا چاہتی ہے کہ دنیا ایک مرتبہ پھر امن کا گہوارہ بن جائے، قافلے سلامت اپنی منزلوں کو پہنچیں، ہزاروں لاکھوں کے ہجوم میں بھی کوئی کمزور و ناتواں کسی کے پائوں تلے نہ کچلا جائے، سسکتی ہوئی انسانیت کی آنکھ کے آنسو خوشیوں کے ستاروں میں بدل جائیں اور نفرت، تعصب  اور بارود کے دھوئیں میں اَٹے ہوئے منظر، محبتوں سے سرسبز شاداب نظاروں میں بدل جائیںتولازماًامام وقت کو ماننا ہو گا۔ دنیا کا کوئی نظام خدا کے بنائے ہوئے نظام سے بہتر نہیں ہوسکتا۔ خدا کرے کہ محبتوں کا، رحمتوں کا، برکتوں کا یہ سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر رہے آمین۔ 
٭…٭…٭


مکمل تحریر >>

Tuesday 11 September 2018

حضرت امام حسین ؓ کا عظیم الشّان مقام




(خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍جون 1994ء بمقام بیت الفضل لندن)

تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انورنے فرمایا۔
یہ مہینہ محرم الحرام کا ہے جس کی بہت سی فضیلتوں کا احادیث میں اور اسلامی لٹریچر میں ذکر ملتا ہے لیکن اس موقع پر آج کے خطبے میں حضرت اقدس محمدمصطفی ﷺکے اہل بیت، آپؐ کی آل کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺکا وہ رشتہ ہے جس رشتے سے ہمارا خدا سے رشتہ بنتا ہے۔ پس آپ کی اولاد سے اس تعلق کا قائم نہ رہنا یا اولاد سے کسی قسم کا بغض، ان دونوں رشتوں کو کاٹ دیتاہے۔ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی اولاد وہ اولاد نہیں تھی جس نے اپنا روحانی تعلق حضرت اقدس محمد رسول اﷲ ؐ سے قائم نہ رکھا بلکہ وہ اولاد تھی جس نے اس تعلق کے تقاضوں میں اپنی جانیں دے دیں اور عظیم ترین قربانیاں پیش کیں۔ پس اس پہلو سے وہ جس کے دل میں اہل بیت کا بغض ہے حقیقت میں اس کے دل میں محمد رسول اﷲؐ کا بغض ہے اور اسلام کا بغض ہے اور اس کی کوئی نیکی، حقیقی نیکی نہیں کہلا سکتی۔ یہ ایک طبعی حقیقت ہے کہ جس سے محبت ہو اس کے محبوب سے محبت ہو۔ جس سے محبت ہو اس سے جو محبت کرتے ہیں ان سے بھی تعلق قائم ہو اور یہ دونوں باتیں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی بہت ہی پیاری اور مقدس بیٹی حضرت فاطمہؓ کی اولاد کو نصیب تھیں۔ان سے حضرت اقدس محمد رسول اﷲﷺ کو محبت تھی اور وہ حضرت محمد رسول اﷲ ﷺسے محبت کرتے تھے اور پھر یہ خونی تعلق بھی تھا اس لئے کسی مسلمان کے تصور میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی کہ آنحضورﷺکے اہل بیت سے دوری تو درکنار، اس کے وہم میں بھی یہ بات داخل ہو کہ میرا ان سے کسی قسم کا تعلق ٹوٹ سکتا ہے۔ اس کے بالکل برعکس ایک گہری بے ساختہ محبت حقیقت میں اس کے ایمان پر گواہ ہو گی اور آنحضرت ﷺ سے پیار پر ایک ایسی پختہ اور دائمی گواہی دے گی کہ جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مگر اس کے برعکس آنحضرت ﷺکی اولاد میں سے پیدا ہونے والے محبت کرنے والوں اور محبوبوں کا ذکر تو محبت سے کیا جائے مگر ان کا جن کا خونی رشتہ نہ بھی تھا مگر خونی رشتوں سے بڑھ کر انہوں نے اپنی جانیں آپؐ پر نثار کیں ان کا بغض سے ذکر کیا جائے، اگر ایسا ہو تو ایسے شخص کے ایمان کے خلاف یہ گواہی بھی بہت مضبوط اور ناقابل تردید گواہی ٹھہرے گی۔ پس حقیقی اور سچی بیچ کی راہ یہ ہے کہ آنحضرتﷺسے جس نے، جس رنگ میں بھی، تعلق باندھا خواہ خون کا رشتہ تھا یا نہ تھا اس سے طبعی بے ساختہ دل میں پیار پیدا ہو۔ یہ سچی علامت ہے انسان کے ایمان کی اور آنحضور ﷺسے حقیقی وابستگی کی۔
آج عالم اسلام نہ جانے کن اندھیروں میں بھٹک رہا ہے کہ یہ دو محبتیں آپس میں پھٹ چکی ہیں اور ان دونوں کو ایک گھر میں جگہ نصیب نہیں۔وہ لوگ جو اہل بیت کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں وہ اہل بیت سے محبت کے ساتھ آنحضور ﷺکے عشاق اور ان فدائیوں کا نفرت اور بغض سے ذکر کرنا بھی جزو ایمان سمجھتے ہیں جن کا ان معنوں میں خونی رشتہ نہیں تھا جن معنوں میں حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ کا رشتہ تھا یا آپ کی اولاد کا تھااور اس طرح محبت میں زہر گھول دیتے ہیں اور اس کے برعکس وہ لوگ جو صحابہ کرامؓ کی عزت بلکہ گہری محبت اور عقیدت کو دل میں جگہ دیتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں اس کے ساتھ محرم کے دنوں میں شیعوں کے خلاف حرکت کرنا اور ان کی مجالس کو درہم برہم کرنا، ان کے جلوسوں میں مخل ہونا، یہ بھی ایک ایمان کا حصہ ہے اور وہ رشتے جو باہم جوڑنے کے لئے بہت ہی اہم کردار کر سکتے تھے جو تمام عالم اسلام کو ایک جگہ اکٹھا کرنے میں ایک بہت ہی مضبوط کردار ادا کر سکتے تھے ان کو اکٹھا کرنے کی بجائے باہم تفریق کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ پس محرم کے دن وہ دن نہیں ہیں جن میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج اہلِ بیت کی قربانیوں کی یاد میں تمام عالم اسلام اکٹھا ہو گیا ہے اور پہلی نفرتیں مٹ چکی ہیں، کوئی فرقے بازی کی تفریق باقی نہیں رہی، آج اس محبت کے صدقے ایک ہاتھ پر ایک جان کے نذرانے لئے ہوئے اکٹھے ہو رہے ہیں۔ اس کے برعکس آپ عجیب بات اخباروں میں پڑھتے ہیں اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ذکر سنتے ہیں کہ محرم آ رہا ہے۔ سخت خطرات ہیں، بڑی دشمنیاں ہوں گی، گلیوں میں خون بہیں گے، سر پھٹول ہو گی، ایک دوسرے کو گالیاں دی جائیں گی اور اسلام کے دو بڑے حصے یعنی شیعہ اور سنی اگر اس عرصہ میں گزشتہ محرم سے اب تک قریب آ بھی گئے تھے تو پھر دوبارہ ایک دوسرے سے ایسا پھٹیں گے کہ وہ نفرتوں کی یاد آئندہ محرم تک باقی رہے گی اس لئے حکومتوں کے ادارے الرٹ ہو رہے ہیں۔ بعض جگہ فوجوں کو بلایا جا رہا ہے، بعض جگہ پولیس کے Reserves کو حرکت دی جارہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ نہایت خطرے کے دن ہیں۔ محبت سے خطرے ہیں؟ کیسے خطرے ہیں؟ محبت تو خطروں کو مٹا دیا کرتی ہے، محبت تو خطروں کے ازالے میں کام آتی ہے۔ پس دونوں جگہ محبت میں کوئی جھوٹ شامل ہو گیا ہے۔ دونوں جگہ نظریں ٹیڑھی ہو گئی ہیں اور حقیقت حال کو دیکھنے سے کلیۃً عاری ہو چکی ہیں ورنہ ناممکن تھا کہ حضرت اقدس محمد مصطفیﷺ کی محبت آپؐ کے صحابہؓ اور آپؐ کے اہل بیت کے درمیان ایسی پھٹ جاتی کہ گویا ایک سے وابستگی دوسرے سے نفرت کے ہم معنی ہو جاتی۔ ایک سے نفرت دوسرے کی محبت کے مترادف ہو جاتی۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا اس لئے محمدرسول اﷲ ﷺکی محبت میں تو کوئی جھوٹ نہیں، ان محبت کے دعویٰ کرنے والوں میں ضرور جھوٹ ہے جو اس محبت کو یہ رنگ دیتے ہیں۔
پس میں تمام عالم اسلام کو ان احمدیوں کی وساطت سے جو اس خطبے کو سن رہے ہیں یہ پیغام دیتا ہوں کہ محرم کے دنوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ دلی محبت پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا کریں اور سنیوں کا یہ کوئی حق نہیں کہ وہ لوگ جو اہل بیت کی محبت میں جلوس نکالتے ہیں خواہ ان کی رسمیں پسند آئیں یا نہ پسند آئیں ان کے محبت کے اظہار میں کسی طرح مخل ہوں، ان پر پتھراؤ کریں، ان پر گولیاں چلائیں، ان پر گالیوں کی بارش کریں۔ یہ کیا انداز ہیں محبت کے۔ یہ تو دلوں میں گُھٹی ہوئی اور گھولی جانے والی نفرتیں ہیں جو ابل ابل کر باہر آ رہی ہیں۔ پس جب تک حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺکے عشق کو اور آپ ؐ سے سچی محبت کو تمام امت کو باہم باندھنے کا ذریعہ نہ بنایا جائے اس وقت تک امت کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ سب ہی حضور کی محبت کا دعویٰ کر کے ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی تعلیم دیتے ہیں اور یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے 72 حصوں میں امت کو تقسیم کرگیا اور آج تک ان کو ہوش نہیں آئی۔ پس جماعت احمدیہ کو آنحضورﷺکی محبت کا پیغام اس رنگ میں امت کو دوبارہ دینے کی ضرورت ہے جس رنگ میں پہلی بار دیا گیا تھا۔ قرآن کریم نے جو دلوں کے باندھنے کا ذکر فرمایا ہے وہ اﷲ کی نعمت کے ساتھ باندھنے کا ذکر فرمایا ہے اور اﷲ کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت محمد رسول اﷲ ﷺتھے اور حقیقت یہ ہے کہ آپؐ ہی کی محبت نے ایک دوسرے کے دشمن قبائل کو یک جان کر دیا تھا۔ وہ جو ایک دوسرے کے جان کے دشمن تھے وہ بھائیوں کی طرح بلکہ ان سے بھی بڑھ کر جان نثار کرنے والے دوست بن چکے تھے اور حضور اکرم ﷺکے وجود کو نکال کر اس کا تصور بھی پیدا نہیں ہو سکتا، ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ پس اگرچہ محمد رسول اﷲﷺنے خود بالارادہ ایسا کام نہیں کیا مگر اﷲ نے آپؐ کی ذات میں آپؐ کی نعمت میں ایک ایسی غیر معمولی کشش رکھ دی تھی کہ ناممکن تھا کہ لوگ آپؐ کی ذات پر ایک مرکز کی حیثیت سے جمع نہ ہو جائیں۔ پس مرکز مدینہ نہیں تھا،مرکزمحمدرسول اﷲ ﷺتھے۔ مرکز مکہ نہیں تھا، مرکز محمد رسول اﷲ ﷺتھے۔ جہاں کہیں آپؐ جاتے تھے وہیں مرکز منتقل ہوتاتھا۔آپ بیٹھتے تھے تو اسلام کا مرکز آپؐ کی ذات میں بیٹھتا تھا۔ آپ اٹھتے تھے تو اسلام کا مرکز آپ ؐ کی ذات میں اٹھتا تھا اور یہی وہ نکتہ تھا جو صحابہؓ کے عشق نے ہمیشہ کے لئے ہم پر حل کر دیا کہ محمد رسول اﷲ ﷺکے مرکز سے محبت اور آپؐ کی ذات میں اکٹھے ہونے کا نام ہی اسلامی وحدت ہے اور یہی توحید کا پیغام ہے جو آج ہمیں سب دنیا کو دینا ہے۔ مگر محمد رسول اﷲﷺ کی امت کو پہلے دینا ضروری ہے کیونکہ سب سے زیادہ اس امت کا حق ہے کہ انہیں دوبارہ از منۂ گزشتہ کی یاد دلا کر، ان زمانوں کے واسطے دے کر جن زمانوں میں محمد رسول اﷲ ﷺکی اولاد بھی تھی، آپؐ کے صحابہؓ بھی تھے اور کسی کے دل پھٹے ہوئے نہیں تھے۔ وہ تمام صحابہؓ جب حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ کو دیکھتے تھے تو ان کی نظریں عشق اور فدائیت سے ان پر پڑتی تھیں۔ ان کے ذکر دیکھو کیسے کیسے پیار سے حدیثوں میں محفوظ کئے گئے۔ کس طرح صحابہؓ ان کو آنحضرت ﷺکے کندھوں پر سوار دیکھتے تھے، نماز میں سجدوں میں جاتے تھے تو اس طرح پیار سے ان کو اتار دیا کرتے تھے، کس طرح ساتھ کھیلتے اور حرکت کرتے اور لاڈ اور پیار کرتے ہوئے دیکھتے تھے اور یوں لگتا تھا کہ تمام صحابہؓ کی آنکھوں میں دل پگھل پگھل کر آ رہے ہیں۔ وہ طرز بیان بتاتی ہے کہ غیرمعمولی عشق تھا۔
پس وہی اہل بیت ہیں، وہی صحابہؓ ہیں، آنحضرت ﷺکے وصال کے بعد تمہیں کیا جنون کودا ہے کہ انہی اہل بیت اور صحابہؓ کو ایک دوسرے کے دل پھاڑنے کے لئے استعمال کرنے لگے ہو۔ وہ تو محبتوں کے پیغامبر تھے، عشق کے سمندر تھے، تم نے انہیں نفرتوں کے سمندر میں تبدیل کر دیا ہے۔ پس آج امت محمدیہؐ کو یہ باتیں سمجھانے کی ضرورت ہے ورنہ یہ امت، امت محمدیہؐ کہلانے کی مستحق نہیں رہے گی۔ ابھی چند دنوں تک آپ دیکھیں گے کہ محرم کے جلوس کراچی میں بھی نکلیں گے، خیرپور میں بھی نکلیں گے، ملتان میں بھی نکلیں گے، بہاولپور میں بھی اور لاہور وغیرہ میں بھی اور ہر جگہ غیر معمولی طورپر پولیس کی طاقت دو نفرت کرنے والے سمندروں کے بیچ میں دیوار کی طرح حائل ہو گی اور پھر وہ یَبْغِیَان ہوں گے، وہ ایک دوسرے کے خلاف بغاوت کریں گے اور ان دیواروں کو توڑ کر، ان کی نفرتیں پھلانگتی ہوئی دوسرے کے امن کو پارہ پارہ کر دیں گی اور ان کی زندگیوں کو زہر آلود کر دیں گی۔ یہ کیا دن ہیں اور ان دنوں کے کیا تقاضے ہیں؟ اور یہ کیا حرکتیں ہیں جو ان دنوں میں کی جا رہی ہیں؟ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جن پر ظالم ملّاں یہ الزام لگاتے ہیں کہ آپؑ نے نہ اہل بیت کی عزت کی نہ صحابہؓ کی۔ ان کی اہل بیت کی عزتیں تو ہر روز برسرعام گلیوں میں پھرتی ہیں اور جو کچھ کسر رہ جاتی ہے وہ محرم کے دنوں میں طشت از بام ہو جاتی ہے۔ کچھ بھی لُکا چُھپا باقی نہیں رہتا۔ مگر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺاور آپؐ کے صحابہؓ اور آپؐ کے اہل بیت کے عشق میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جو پاکیزہ تحریریں ہیں ان پر مہریں لگائی گئی ہیں، ان پر تالے لگا دئے گئے ہیں۔ جو عشق کے اظہار ہیں انہیں اجازت نہیں کہ وہ گلیوں میں کھل کر نکلیں۔ جو نفرتوں کے پیغام ہیں وہ گلیاں ان کی ہیں، وہ صحن ان کے ہیں، جب چاہیں جس طرح چاہیں نفرتوں کا اظہار جس ملک میں چاہیں کرتے پھریں، یہ بڑا ظلم ہے، یہ ایک خود کشی ہے۔
پس آج کے خطبے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی چند تحریریں چنی ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور یہی آج امت کا علاج ہے کہ ایک ہی زبان سے ایک ہی منہ سے صحابہؓ کے عشق کے قصے بھی بیان ہوں اور اہل بیت کے عشق کے قصے بھی بیان ہوں تا کہ پھر امت ان دو پاک ذرائع سے ایک ہاتھ پر اکٹھی ہو جائے۔ یعنی محمد رسول اﷲ ﷺکے عشق میں، اور وہی مرکزیت اسلام کو دوبارہ نصیب ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت امام حسنؓ اور امام حسینؓ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’افسوس یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ قرآن نے تو امام حسینؓ کو رتبہ ابنیت کا بھی نہیں دیا تھا۔‘‘
یہ وہ عبارت ہے جس کو لے کر مولویوں نے شور مچایا کہ دیکھو امام حسینؓ کے خلاف کیسی سخت زبان استعمال کی ہے۔ رتبہ ابنیت کا بھی نہیں دیا تھا، کہتے ہیں دیکھو حضرت محمدرسول اﷲ ﷺکی اولاد میں شمار نہیں کرتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عبارت پوری پڑھتے تو ان کو پتا چلتا کہ اگلے فقرے میں یہ فرمایا کہ:
’’آیت خاتم النبیین بتا رہی ہے مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ  کہ ’’کہ محمدؐ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں تو یہ اشارہ اس طرف ہے کہ حضرت امام حسنؓ اور امام حسینؓ ہی نہیں، صحابہ میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو جسمانی طور پر محمدؐ رسول اﷲ کا بیٹا ہواور ہر ایک وہ ہے جو روحانی طور پر آپ کا بیٹا بن سکتا ہے۔‘‘
پس یہ تفریق دور کرنے کے لئے ایسا عظیم نکتہ امت محمدیہ کے سامنے پیش فرمایا کہ تم خون کے رشتے سے ابنیت کی باتیں چھوڑ دو کیونکہ قرآن کریم نے ہر رشتے سے ابنیت کی باتیں ختم کر دی ہیں سوائے روحانی رشتے کے۔رسول کا رشتہ سب سے برابر کا رشتہ ہو جاتا ہے اور اس رشتے سے جو روحانی بیٹا بنے گا اس کی راہ میں کوئی چیز حائل نہیں ہو سکتی اور جو روحانی بیٹا نہیں بنے گا ظاہری تعلق بھی اس کا کام نہیں آ سکتا۔
یہ وہ مضمون تھا جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا اور ان ملانوں نے کیسے کیسے ظلم کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام کے خلاف یہ غلط باتیں منسوب کیں کہ گویا نعوذ باﷲ من ذالک آپؑ کے دل میں نہ صحابہ کی عزت تھی نہ اہل بیت کی تھی۔ اب میں آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں بتاتا ہوں کہ آپ کے نزدیک اہل بیت کا کیا مقام تھا اور صحابہ کا کیا مقام تھا۔ فرماتے ہیں:۔
’’حضرت عیسیٰ ؑ اور امام حسینؓ کے اصل مقام اور درجہ کاجتنا مجھ کو علم ہے دوسرے کو نہیں ہے۔‘‘
اب عیسیٰ ؑ اور امام حسین کا کیا جوڑ ہے۔ نبیوں میں اپنی جان کی عظیم قربانی پیش کرنے میں عیسیٰؑ کو ایک عجیب مرتبہ اور عجیب مقام حاصل تھا۔ نبیوں میں وہ ایک منفرد مقام ہے جو محمدرسول اﷲﷺ سے پہلے گزرے ہیں جس طرح، جس شان کے ساتھ حضرت عیسیٰ ؑنے حق کی خاطر اپنی جان کی قربانی پیش کی ہے اور صلیب کی اذیتیں قبول کی ہیں۔ پس دیکھیں ایک عارف باﷲ کا کلام کس طرح ان باتوں کو جوڑتا ہے جس طرف ایک ظاہری نظر رکھنے والے کا تصور بھی نہیں جا سکتا۔ فرماتے ہیں:۔
’’عیسیٰ ؑاور امام حسینؓ کے اصل مقام ودرجہ کا جتنا مجھ کو علم ہے دوسرے کو نہیں ہے کیونکہ جوہری ہی جوہر کی حقیقت کو سمجھتا ہے اس طرح پر دوسرے لوگ خواہ وہ امام حسینؓ کو سجدہ کریں مگر وہ ان کے رتبہ اور مقام سے محض ناواقف ہیں اور عیسائی خواہ حضرت عیسیٰ ؑ کو خدا کا بیٹا یا خدا جو چاہیں بنا دیں مگر وہ ان کے اصل اتباع اور حقیقی مقام سے بے خبر ہیں اور ہم ہر گز یہ باتیں تحقیر سے نہیں کہہ رہے۔‘‘
ان کی تحقیر مراد نہیں بلکہ امرِ واقعہ بیان کر رہے ہیں کہ مسیح کا جو حقیقی مرتبہ میرے دل پر روشن ہوا ہے اور حسین کا جو حقیقی مرتبہ میرے دل پر روشن ہوا ہے وہ ان کے سجدہ کرنے والوں کے دلوں پر بھی روشن نہیں اور سجدہ کرنا خود بتاتا ہے کہ مقام سے بے خبر ہیں۔ پس اسی فقرہ میں اپنے کلام کی تائید میں ایک محکم دلیل بھی داخل فرما دی۔ وہ شان کیاہے۔ فرماتے ہیں:۔
’’مَیں اس اشتہار کے ذریعہ سے اپنی جماعت کو اطلاع دیتا ہوں کہ ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ یزید ایک ناپاک طبع دُنیا کا کیڑا اور ظالم تھا اور جن معنوں کی رو سے کسی کو مومن کہا جاتا ہے وہ معنے اس میں موجود نہ تھے۔‘‘
یہ ہے اعلان حق۔ کوئی پرواہ نہیں کہ سنی اس سے خوش ہوتے ہیں یا ناراض ہوتے ہیں حالانکہ آپ اہل سنت سے تعلق رکھتے تھے، اہل تشیع میں شامل نہیں تھے اور مقام تو در حقیقت دونوں سے بالا تھا کیونکہ آپ نے حکم عدل کے طور پر دونوں کے درمیان فیصلے کرنے تھے۔ پس آپ دنیا کے خوف سے بالکل مستغنی اور بالا تھے۔ فرماتے ہیں:۔
’’یزید ایک ناپاک طبع دُنیا کا کیڑا اور ظالم تھا اور جن معنوں کی رو سے کسی کو مؤمن کہا جاتا ہے وہ معنے اس میں موجود نہ تھے۔ مومن بننا کوئی امر سہل نہیں ہے۔ اﷲ تعالےٰ ایسے شخصوں کی نسبت فرماتا ہے:۔
’’ قَالَتِ الأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا‘‘مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال ان کے ایمان پر گواہی دیتے ہیں جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور اس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں۔‘‘
فرماتے ہیں:۔
’’دنیا کی محبت نے اس کو اندھا کر دیا تھا۔ مگر حسین رضی اﷲ عنہ طاہر و مطہر تھا اور بلاشبہ ان برگزیدوں میں سے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا ہے اور اپنی محبت سے معمور کرتا ہے اور بلاشبہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہے۔‘‘
یہ حضرت امام حسینؓ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مؤقف ہے اور ایک ایک لفظ بتا رہا ہے کہ سچے دل کی آواز ہے جو بے ساختہ اور بلاتکلف دل سے بلند ہو رہی ہے:
’’سردارنِ بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلبِ ایمان ہے اور امام کی تقویٰ اور محبت الہٰی اور صبر استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے اور ہم اس معصوم کی ہدایت کے اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی۔ تباہ ہو گیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے۔‘‘
اب دیکھیں ’’عملی رنگ‘‘ نے اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ زبان کے دعوؤں کی بات نہیں ہو رہی۔ زنجیروں سے سینہ کوبی کی بات نہیں ہو رہی۔ فرمایا ہے جو عمل سے اس سے محبت کرتا ہے اور اپنے عمل سے اس کی محبت کو سچا ثابت کر دیتا ہے یعنی حسین کے رنگ اختیار کرتا ہے وہی سنت اپنا لیتا ہے جو حسین کی سنت تھی۔ فرماتے ہیں:۔
’’کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الہٰی کے تمام نقوش انعکاسی کے طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے۔‘‘
(ّمجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 544)
کون کون سے ہیں؟ ایمان، اخلاق، شجاعت یعنی بہادری، تقویٰ یعنی خدا خوفی اور اپنی بات پر صبر کے ساتھ قائم ہو جانا اور کسی مخالفت کی پرواہ نہ کرنا یعنی استقامت اور محبت الہٰی کے تمام نقوش اپنے دل پر منعکس کرتا ہے اور انہیں اپنا لیتا ہے۔ ’’جیسا کہ ایک صاف آئینہ ایک خوب صورت انسان کا نقش‘‘ اپنے اندر لے لیتا ہے۔ یہ اپنے اندر لے لیتا ہے کے الفاظ پہلے گزر چکے ہیں اب میں نے وہی مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ دہرائے ہیں جو اس فقرے کے شروع میں تھے:
’’یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں کون جانتا ہے ان کی قدر مگر وہی جو انہی میں سے ہے‘‘جو ویسا ہی دل رکھتا ہے ویسا ہی محبت الہٰی میں وہ پاک اور صاف کیا گیا ہے اور محبت کی آگ میں جلایا گیا ہے وہی ہے جو ان لوگوں کے حالات کو جانتا ہے۔ ان کے تجارب سے واقف ہے۔ غیر کی آنکھ، باہر سے دیکھنے والی، اس کی حقیقت کو پہچان نہیں سکتی۔
’’دنیا کی آنکھ ان کو شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں۔ یہی وجہ حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت کی تھی۔‘‘ اب دیکھیں کیسا عظیم نکتہ ہے اور یہ محبت اور معرفت کی آنکھ سے ہی دکھائی دیتا ہے۔ یہ مجلسوں میں پڑھا جانے والا نکتہ تو نہیں ہے۔ فرماتے ہیں:
’’یہی وجہ حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا۔‘‘
ایک سو سال کے شیعوں کے ماتم ایک طرف اور یہ فقرہ ایک طرف۔ کیسی حقیقت کی روح پر انگلی رکھ دی ہے۔ اس کی شہادت کی یہی وجہ تھی کہ حسینؓ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ مگر افسوس کہ جیسا کہ وہ کل شناخت نہیں کیا گیا تھا ویسا ہی آج بھی شناخت نہیں کیا گیا، ورنہ حسینؓ کے نام پر محمدؐ رسول اﷲ کے عشاق سے نفرتوں کی تعلیم نہ دی جاتی اور محمد رسول اﷲ ﷺکے عشاق حسینؓ کا عذر رکھ کر ان سے محبت کرنے والوں سے نفرت کی تعلیم نہ دیتے۔ پس شناخت کا جہاں تک معاملہ ہے خدا کے پیارے تو بعض دفعہ نہ اپنے وقت پر شناخت کئے جاتے ہیں نہ بعد میں شناخت کئے جاتے ہیں۔ مگر وہی ان کو شناخت کرتا ہے جو ویسا دل رکھتا ہے، ویسا مزاج اس کو عطا ہوتا ہے، ویسی ہی فطرت ودیعت کی جاتی ہے، وہی ہے جو حقیقت میں شناخت کا حق رکھتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ’’ یہی وجہ حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا۔دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اس کے زمانے میں محبت کی تا حسین رضی اﷲ عنہ سے بھی محبت کی جاتی۔‘‘ یہاں یہ مراد نہیں ہے کہ کوئی محبت نہیں کرتا۔حضرت محمد رسول اﷲ ﷺکی زندگی میں آپؐ کے بڑے بڑے عشاق پیدا ہوئے۔ ہرنبی کے وقت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں بھی کچھ عشاق پیدا ہوئے مگر مراد یہ ہے کہ کثرت کے ساتھ، قومی طور پر، بڑی تعداد میں، بہت بعد میں آنے والے محبت کی باتیں کرتے ہیں لیکن وہ لوگ یا ان کے مزاج کے لوگ جو اس برگزیدہ کی زندگی میں، اس زمانے میں ہوتے ہیں وہ اس کو نہیں پہچانتے اور یہ حقیقت ہے کہ قرآن کریم نے اسی لئے حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تعلق رکھنے والی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ تم وہی ہو جنہوں نے موسیٰ کو اذیتیں دیں، تم وہی ہو جو اس زمانے میں نبیوں کو قتل کیا کرتے تھے حالانکہ وہ تو دو ہزار سال بعد پیدا ہوئے تھے۔ وہ، وہ کیسے ہو گئے۔ مراد یہ ہے کہ تم ایسے لوگ ہو کہ تمہاری سرشت ایسی ہے۔ اگر تم اس زمانہ میں ہوتے تو وقت کے مقدس انسان کو پہچان نہ سکتے اور ضرور اس کی دشمنی میں اس کی عزت اور جان کے در پے ہو جاتے لیکن اب تم اس کی محبت کی باتیں کرتے ہو۔ توحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ان لوگوں کا ذکر فرما رہے ہیں کہ یہ لوگ جب برگزیدہ لوگوں کی زندگی میں اس وقت سے حصہ پاتے ہیں تو کبھی ان کو پہچان نہیں سکتے اور جب وہ وفات پا جاتے ہیں یا ویسے کسی وجہ سے ان سے دور ہٹ جاتے ہیں، زمانے بدل جاتے ہیں، اس وقت پھر یہ ان کی محبت کے گیت گاتے اور ان کے نام کو اچھالتے ہیں۔
’’ غرض یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین رضی اﷲ عنہ اس شخص کی یا کسی بزرگ کی جو ائمہ مطہرین میں سے ہے تحقیر کرتا ہے یا کوئی کلمہ استخفاف کا اس کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے۔ وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے کیونکہ اﷲ جلّشانہ اس کا دشمن ہو جاتا ہے جو اس کے برگزیدوں اور پیاروں کا دشمن ہے۔جو شخص مجھے بُرا کہتا یا لعن طعن کرتا ہے اس کے عوض میں کسی برگزیدہ اور محبوب الہٰی کی نسبت شوخی کا لفظ زبان پر لانا سخت معصیت سمجھتا ہوں ۔‘‘
فرمایا جو مجھے برا سمجھتا ہے، مجھ پر لعن طعن کرتا ہے اس کا بدلہ میں معصومین سے نہیں لیتا اور شوخی کے طور پر ان پر اپنا غصہ اتارنا ایک سخت لعنت کی بات سمجھتا ہوں، سخت براسمجھتا ہوں۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’اس میں کس ایماندار کو کلام ہے کہ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اﷲ عنھما خدا کے برگزیدہ اور صاحبِ کمال اور صاحب عفت اور عصمت اور ائمۃ الھدیٰ تھے (یعنی ہدایت کے اماموں میں سے تھے) اور وہ بلاشبہ دونوں معنوں کی رو سے آنحضرت ﷺ کی آل تھے۔ خون کے لحاظ سے بھی آل تھے اور روحانی وراثت کے لحاظ سے بھی آل تھے۔ لیکن کلام اس بات میں ہے کہ کیوں آل کی اعلیٰ قسم کو چھوڑا گیا ہے اور ادنیٰ پر فخر کیا جاتا ہے۔ تعجب کہ اعلیٰ قسم امام حسن اور امام حسین کے آل ہونے کی اور کسی کے آل ہونے کی جس کی رو سے وہ آنحضرت ﷺکے روحانی مال کے وارث ٹھہرتے ہیں اور بہشت کے سردار کہلاتے ہیں۔ یہ لوگ اس کا تو کچھ ذکر نہیں کرتے اور ایک فانی رشتے کو بار بار پیش کیا جاتا ہے۔‘‘
یہ وہ نقص ہے جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام، حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ کی محبت رکھنے والوں کے تعلق میں بیان فرما رہے ہیں کہ ان کو اس پہلو سے اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔ ان دونوں کا مرتبہ جس کے نتیجہ میں آنحضرت ﷺنے ان کو روحانی طور پر بہت اعلیٰ مراتب پر فائز فرما دیا وہ روحانی تعلق کی بنا پر تھا نہ کہ جسمانی رشتے کی بنا پر۔ آپؐ نے فرما دیا، سے یہ مراد ہے کہ آپؐ نے ان کے اعلیٰ مراتب کی نشاندہی فرمائی اور ان کی شان میں بہت ہی پاکیزہ اور مقدس خیالات کا اظہار فرمایا۔ان کو ان اعلیٰ مراتب پر فائز تو خدا نے فرمایاتھا مگر حضرت محمدؐ رسول اﷲ کی زبان سے ہم نے اس کا ذکر سنا اس لئے آپؐ جب کہتے ہیں کہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہے تو بلا شبہ یہ اﷲ کا کلام ہے جوحضرت محمد رسول اﷲ ﷺپر نازل ہوا ہے ورنہ حضرت محمد رسول اﷲ ﷺاپنی طر ف سے تو کسی کو سردارِ بہشت نہیں بنا سکتے تھے۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ آپؐ کی نظر ان کے روحانی مراتب پر تھی، ہرگز اس بات پر نہیں تھی کہ چونکہ میری بیٹی کی اولاد میں سے ہوں گے یا بیٹی کی پشت سے پیدا ہوں گے اس لئے یہ سردارِ بہشت ہیں۔ پس ان کا سردارانِ بہشت ہونا بتاتاہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کا روحانی ورثہ پایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں اس اعلیٰ بات کا ذکر تم نہیں کرتے اور محرم کے موقع پر یا ویسے مجالس میں خونی رشتے کی باتیں کرتے چلے جاتے ہو۔ اگر ایسا کرو گے تو دوسرے روحانی ورثہ پانے والوں کی طرف بھی محبت کی نگاہ پڑے گی، نفرت کی نگاہ ان پر نہیں پڑ سکتی۔ یہی وجہِ تفریق ہے۔ یہی بیماری ہے جس کی نشان دہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی اور جس طرف اب توجہ کرنا ضروری ہے۔
تمام شیعوں کو میری نصیحت ہے کہ وہ اپنی مجالس میں جتنا چاہیں محبت کا اظہار کریں مگر اگر روحانی تعلق سے ایسا کریں تو پھر وہی روحانی تعلق کی باتیں ان کو حضرت ابوبکرؓ سے بھی محبت پر مجبور کر دیں گی، حضرت عثمانؓ سے بھی محبت پر مجبور کر دیں گی، حضرت عمرؓ سے بھی محبت پر مجبور کر دیں گی۔ تمام صحابہؓ کے لئے ان کے دل میں محبت کے سوا اور کچھ نہیں رہے گا لیکن چونکہ جسمانی رشتے پر زور دیا جاتا ہے اور اس پہلو سے صحابہؓ کو کلیۃً حضرت محمد رسول اﷲ ﷺسے جدا دکھایا جاتا ہے گویا ایک الگ قوم ہے جس کا آپؐ سے اور آپؐ کے مقاصد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لئے یہ نفرتیں رفتہ رفتہ ان کے دلوں میں جا گزیں ہوئیں اور پھر بڑھتی چلی گئیں یہاں تک کہ بغضِ صحابہ ان کے ایمان کا حصہ بن گیا اور اس نے پھر یہ رد عمل دکھایا کہ سنّیوں میں بھی سپاہ صحابہ جیسی چیزیں پیدا ہوئیں جن کے اعلیٰ مقاصد میں شیعوں کا خون بہانا اس طرح داخل ہو گیا جیسے اسلام کے دشمنوں کے خلاف جہاد صحابہؓ کے دلوں میں داخل تھا۔ صحابہؓ کے دلوں میں اسلام کے خلاف تلوار اٹھانے والوں کے مقابل پر جہاد کا ایک جوش پایا جاتا تھا لیکن یہ ایک دفاعی جہاد تھا، اس میں نفرتوں کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ ان نفرتوں کے خلاف جہاد تھا جن نفرتوں کا صحابہؓ کو نشانہ بنایا جا رہا تھا، حضرت محمد رسول اﷲﷺ کو نشانہ بنایا جا رہا تھا لیکن جو آج ہم دیکھ رہے ہیں وہ بالکل برعکس قصّہ ہے سپاہِ صحابہ کے دل میں شیعوں کی نفرت ہے جو موجزن ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ شیعوں میں سے کسی کا قتل یا ان میں سے کسی مجلسی کا قتل کرنا نہ صرف یہ کہ اﷲ کے حضور ان کے لئے اعلیٰ مراتب کا ضامن ہو جائے گا بلکہ بعض ان میں سے مولوی یہ بیان کرتے ہیں کہ تم اگر ایسا کرو گے اور اس کوشش میں تم مارے جاؤ تو تم سردارانِ بہشت میں سے شمار ہو گے۔ تم دیکھنا کہ کیسے کیسے پاک وجود تمہارے استقبال کی خاطر جنت کے دروازوں تک آتے ہیں۔ ایسے ایسے لغو قصے بیان کئے جاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ ان قصوں کے ماننے والے دماغ کس قسم کے ہوں گے، مگر ہمارے ملک میں بد قسمتی سے جہالت بہت ہے اور یہی جہالت ہے جو اس تفریق کو مزید ہوا دے رہی ہے اور ان فاصلوں کو بڑھا رہی ہے۔ 
پس محرم میں محبت کی اور باہم رشتوں کو باندھنے کی تعلیم دینی ضروری ہے اور جیسا کہ مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے حقیقت یہ ہے کہ اول زور روحانی تعلق پر دینا ضروری ہے اور پھر جسمانی طور پر اگر تعلق ہے تو اس تعلق میں اضافہ ہو گا، کمی نہیں ہو سکتی۔ یعنی جسمانی تعلق سونے پر سہاگے کا کام دے گا لیکن شرط یہ ہے کہ پہلے روحانی تعلق قائم ہو اور روحانی تعلق پر زور دیا جائے پھر زائد کے طور پر جب جسمانی رشتہ دکھائی دے گا تو لازمًا سب کو محبت ہو گی۔
پس سنّیوں کو بجائے اس کے کہ نفرتوں کی تعلیم دیں اور ان کے جلوسوں پر حملہ آور ہوں اور طرح طرح سے ان کی راہیں روکیں یا کاٹیں یا ان پربم پھینکیں یا زبان سے گندی گالیوں کی گولہ باری کریں۔ ان کا فرض ہے کہ ایسے موقع پر ان سے بڑھ کر صحابہؓ کے عشق کی باتیں کیا کریں اور ان میں حضرت محمد رسول اﷲ ﷺکے اہلِ بیت کو جو صحابہ کا مرتبہ بھی رکھتے تھے، روحانی وارث بھی تھے اور روحانی وارثوں میں بھی بہت بلند مقام پر فائز تھے ان کا ذکر بھی کریں اور دوسرے صحابہؓ کا ذکر بھی کریں۔ صدیقوں کا ذکر بھی کریں اور شہیدوں کا ذکر بھی کریں اور کثرت سے درود اور سلام کی مجلسیں لگائیں اور اس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں تو یہی دن کتنی برکت کے دن بن سکتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ دونوں طرف سے ان دنوں کو، نفرتیں پھیلانے کے لئے استعمال کیاجائے، دونوں ایک دوسرے کی نیکی کی باتوں میں سبقت لے جانے کی کوشش کریں اور یہ بتائیں دنیا کو کہ ہم محمد رسول اﷲ ﷺکے عشاق سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں۔ ہم اہل بیت سے دوسروں کی نسبت زیادہ پیار رکھنے والے ہیں۔ اہل بیت کے ترانے اگر سارے سنّی گانے شروع کر دیں توشیعوں کی آواز کو اس آواز میں ڈبو سکتے ہیں اور زیادہ عشق کے ترانے گائیں، ان سے بلند تر آواز میں اور ان کو بتائیں کہ محبت کی باتیں ہی کافی ہیں نفرت کی باتیں بیان کرنا ضروری نہیں۔ پس اس موقع کا اصل علاج یہ ہے۔
نہ پولیس علاج ہے نہ فوج علاج ہے، یہ علاج کتنے سالوں سے تم کرتے چلے آ رہے ہو۔ آج تو کہہ دیتے ہو کہ ’را‘ کی وجہ سے ایسا ہوا ہے، ہندوستان کے ایجنٹ ہیں جو یہ کام کروا رہے ہیں۔ کل تم کہا کرتے تھے کہ قادیانیوں کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے۔ احمدی ایجنٹ ہیں جو کروا رہے ہیں۔ بھٹو صاحب کے زمانے میں بھی یہی ہوا اور ضیاء کے زمانے میں تو باقاعدہ دستور بن گیا تھا کہ حکومت کی طرف سے نوٹیفکیشن جاری ہوتے تھے اور کہا جاتا تھا احمدیوں کی نگرانی کرو۔ بڑی سختی کے ساتھ تمام تر جاسوسی ان کے لئے وقف کر دو کیونکہ ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے کہ محرم کے موقع پر احمدی شیعوں اور سنّیوں میں فساد برپا کریں گے اور ظلم کی حد، ہر دفعہ توجہ دشمن سے ہٹا کر دوستوں کی طرف کر دی جاتی۔ ساری احمدیت کی تاریخ اس بات کو جھٹلا رہی ہے اور کئی پولیس افسران ان تحریروں کو پڑھ کر یہ کہا کرتے تھے اور بعض احمدیوں کے سامنے بات بیان کی کہ ہماری حکومت پتا نہیں پاگل ہو گئی ہے، ان کو پتا نہیں کہ احمدیوں کا مزاج ہی یہ نہیں ہے۔ کبھی ہوا ہے آج تک کہ ان کی سو سالہ تاریخ میں کہ احمدیوں نے فساد برپا کئے ہوں؟ ایک پرامن جماعت ہے، ان کے خلاف فساد ہوئے ہیں، درست ہے لیکن آج تک ایک بھی واقعہ ایسا نہیں ہے کہ جماعت احمدیہ نے کبھی دوسروں میں فساد کے خیالات پھیلائے ہوں یا کسی طرح فساد پھیلانے میں کسی قسم کا دخل ہی دیا ہو۔ کامیابی تودور کی بات ہے۔ کہتے ہیں اشارۃً یعنی بعض پولیس افسران کی بات کر رہا ہوں انہوں نے اپنی لمبی سروس کا حوالہ دے کر کہا کہ میں جانتا ہوں اس لمبے زمانے میں جو پولیس میں سروس کی ہے اور میں حلف اٹھا سکتا ہوں اس بات پر کہ احمدی مزاج میں فساد کرانا داخل نہیں۔ کبھی مجھے آج تک کسی احمدی میں بھی اشارۃً یہ بات دکھائی نہیں دی۔ تو کرتے کیا تھے، جنہوں نے شرارت کرنی ہوتی تھی ان پر سے توجہ ہٹا کر جو شرارت کے خلاف ہوا کرتے تھے ان کی طرف توجہ مرکوز کر دیا کرتے تھے اور پھر ان کو فساد کی کھلی چھٹی تھی جو ان میں فساد کر رہے تھے۔ زیر نظر احمدی ہیں اور فساد کرانے ہیں یا شیعوں نے یا سنّیوں نے اور وہ پھر کھلم کھلا اپنی سازشیں کرتے اور فساد کرتے اور فسادوں کے بعد ایک دفعہ بھی ان دشمن حکومتوں کو ایک ادنیٰ سی بات بھی ہاتھ نہ آئی کہ ثابت کر سکیں کہ یہ فساد احمدیوں نے کروایا تھا۔ مجھے یاد ہے انہی دنوں میں جب یہ کہا کرتے تھے کہ احمدیوں سے متنبہ رہو۔ کراچی میں ساری پولیس کی توجہ احمدیوں کی طرف تھی اور ادھر کراچی میں شیعوں کے امام باڑے جل گئے۔ شیعوں کو ان کے گھروں میں زندہ جلا دیا گیا تو کون لوگ گئے تھے وہاں۔ کیا کوئی احمدی تھا؟ تحقیق نے کیا ثابت کیا تھا کہ احمدیوں کا کوئی دور سے بھی اس بات سے تعلق نہیں ہے۔ 
پس جب ایک قوم جھوٹ بولنے کی عادی ہو جائے اور عملًا جھوٹ کی پرستش کرنا شروع کر دے تو جھوٹ کی ساری تدبیریں اپنے ہی خلاف الٹا کرتی ہیں۔ احمدی تو امن پیدا کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور احمدیوں سے آپ کبھی فساد کی بات نہیں دیکھیں گے۔ اب آپ کہتے ہیں ’را‘ نے ایسا کیا۔ اب ’را‘ کیسے وہ دشمنیاں دلوں میں پیدا کر سکتی ہے جو تاریخ کے سینکڑوں سال گواہ ہیں کہ تمہارے دلوں میں مسلسل چلی آ رہی ہیں۔ کم از کم ایک ہزار سال گزر چکا ہے اس تاریخ کو کہ خود مسلمانوں نے مختلف وقتوں میں ایک دوسرے کے گھر جلائے ہیں، ایک دوسرے کی قبریں اکھاڑی ہیں، مُردوں کو دوبارہ پھانسی دی گئی ہے اور ان کے پنجروں کو پھانسی پر لٹکایا گیا ہے۔ یہ ہلاکو خان کا واقعہ بھول گئے ہو۔ ایک سنّی دور میں جب بعض شیعوں پر مظالم ہوئے ہیں تو اس کے رد عمل کے طور پر پھر شیعہ وزیر نے انتقام لیا اور اس نے ہلاکو خان کو دعوت دی کہ آؤ اور اس ملک پر قبضہ کرو۔ یہ تاریخ بتا رہی ہے۔ وہاں کونسی ’را‘ تھی جو اپنا کام دکھاتی تھی؟ میں ہندوستان کے حق میں بات نہیں کر رہا، میں کسی کے حق میں بھی بات نہیں کر رہا نہ کسی کے خلاف بات کر رہا ہوں۔ میں یہ سمجھا رہا ہوں کہ حقیقت حال پر نظر رکھو۔ نفرتیں جہاں پرورش پاتی ہیں وہی جگہ ہے نگرانی کی اور ان نفرتوں کی پرورش گاہوں میں اگر کوئی دشمن گُھس کر مزید انگیخت کرے تو وہ ایسی کوشش کر سکتا ہے اس سے انکار نہیں لیکن نفرتیں قائم ہیں تو کوشش پھر ضرور کامیاب ہوں گی اور یہ عذر قابل تسلیم نہیں ہو گا کہ فلاں نے ایسا کروایا ہے۔ تم کرنے پر تیار بیٹھے تھے اور اس نے جو تلوار نیچے گری ہوئی تھی اٹھا کے تمہارے ہاتھوں میں تھما دی اس سے زیادہ تو اس کو کوئی کام نہیں۔ لیکن کرنے والے تم ہو، تمہاری نیتیں ہیں جن میں زہر گھلے ہوئے ہیں، وہ نیتیں ہیں جو ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر سکتیں، وہ آنکھیں ہیں جو ایک دوسرے کو اچھا دیکھ نہیں سکتیں، ان نفرتوں کا علاج کرو۔ ان نظروں کو درست کرنے کی کوئی تدبیر کرو، ان دلوں سے نفرتیں ہٹا کر ان میں محبتوں کے رس گھولنے کی کوشش کرو، اس کے سوا کوئی علاج ہی نہیں ہے اور یہ علاج امامِ وقت تمہیں بتا رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جو حَکم عَدل بن کر آئے تھے وہ سلیقہ سکھا رہے ہیں کہ دیکھو اس طرح صحابہؓ کی بھی تعریف کرو۔ اس طرح اہل بیت کی بھی تعریف کرو۔ ان پر بھی درود بھیجو، ان پر بھی درود بھیجو، یہی ایک ذریعہ ہے امت کے اکٹھا ہونے کا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔
’’یقینا ہمارے نبی خیر الوریٰ ﷺ ہمارے رب اعلیٰ کی دونوں صفات رحمانیت اور رحیمیت کے مظہر تھے پھر صحابہ رضوان اﷲ علیھم حقیقت محمدیہ جلالیہ کے وارث ہوئے جیسا کہ پہلے تجھے معلوم ہو چکا ہے۔‘‘
اب ان صحابہؓ کے ذکر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اہلِ بیت یعنی خونی رشتے کے ذریعے منسلک اور دوسروں سب کا اکٹھا ذکر فرما رہے ہیں اور تمام صحابہؓ کی تعریف فرما رہے ہیں اس میں نعوذ باﷲ اہل بیت اس تعریف سے خارج نہیں ہوئے بلکہ جیسا کہ پہلے میں حوالہ دے چکا ہوں اول طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیش نظر ہیں۔ فرماتے ہیں:۔
’’پھر صحابہ حقیقت محمدیہ جلالیہ کے وارث ہوئے جیسا کہ تجھے معلوم ہو چکا ہے ان کی تلوار مشرکین کی جڑ کاٹنے کے لئے اٹھائی گئی اور مخلوق پرستوں کے ہاں ان کی ایسی کہانیاں ذکر ہیں جو بھلائی نہ جا سکیں گی۔ انہوں نے صفت محمدیہ کا حق ادا کر دیا۔‘‘
اب صفت محمدیہؐ کو صحابہؓ میں رائج فرمایاہے۔یہ ایک بہت ہی اہم نکتہ ہے۔ وہ تمام صفات حسنہ جو خونی رشتوں میں تعلق رکھنے والے اہل بیت میں تھیں یا محض روحانی رشتہ میں بندھے ہوئے صحابہؓ میں تھیں وہ تمام خوبیاں نہ اِن کی ذاتی تھیں، نہ اُن کی ذاتی تھیں وہ صفت محمدیہؐ کے ان میں جاری ہونے کے نتیجہ میں تھیں۔ جو اس نکتہ کو سمجھ جائے وہ ایک کے مقابل پر دوسرے سے نفرت کر ہی نہیں سکتا کیونکہ صفت محمدیہؓ کی طرف پیٹھ دکھا کر صفت محمدیہؐ سے محبت نہیں کی جا سکتی۔ صفت محمدیہؐ پر حملہ آور ہوتے ہوئے صفت محمدیہؐ کے عشق کے گیت نہیں گائے جاسکتے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کس اعلیٰ پیرائے میں حضرت محمد رسول اﷲﷺ کی سیرت ہی کو صحابہ میں جلوہ گر دکھایا۔ فرمایا ہے وہاں بھی سیرت محمدیہؐ کام کر رہی ہے۔اے سیرت محمدیہؐ کے عشاق! کیا تم سیرت محمدیہ سے دشمنی کرو گے؟۔
پس جہاں صفتِ محمدی کے سوا کچھ ہے ہی نہیں۔ ’’‘‘وہاں اہل بیت یا غیر اہل بیت کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ اگر حسن ہے تو محمد کا حسن ہے ﷺ۔ سیرت ہے تو محمد کی سیرت ہے ﷺاور صحابہ میں اگر کوئی مدح کی بات پائی جاتی ہے تو محمدؐ رسول اﷲ کی سیرت کو اپنانے کے نتیجے میں ہے اور بعینہٖ یہی وجہ فضیلت کی اہل بیت میں پائی جاتی ہے اس کے سوا کوئی وجہ نہیں۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’اﷲ تعالیٰ نے صحابہ کو اور ان کے تابعین کو اسم محمدؐ کا مظہر بنایا اور ان کے ذریعے رحمانی جلالی شان ظاہر کی اور انہیں غلبہ عطا کیا اور پے در پے نعمتوں کے ذریعہ ان کی نصرت فرمائی۔‘‘
 (اعجاز المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 110)
 پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام صحابہ رضوان اﷲ علیھم کے ذکر میں فرماتے ہیں:۔
’’صحابہ رضوان اﷲ علیھم کے زمانے میں تو یقین کے چشمے جاری تھے اور وہ خدائی نشانوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے اور انہی نشانوں کے ذریعہ سے خدا کے کلام پر انہیں یقین ہو گیا تھا اس لئے ان کی زندگی نہایت پاک ہو گئی تھی۔‘‘ (اعجاز المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 468)
اب یہ وہ حصہ ہے جس کی کمی کی وجہ سے ساری امت، کہلانے والی امت میں، یعنی رسول اﷲﷺ کی طرف منسوب ہونے والے لوگوں میں فساد پھیلا ہوا ہے۔ یعنی یہ وہ نکتہ ہے جس کو نہ سمجھنے کی وجہ سے، جس پر عمل نہ کرنے کے نتیجہ میں، کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ انہوں نے محمد رسول اﷲ ﷺمیں خدائی نشان دیکھے اور اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اس ذریعہ سے خدا کے کلام پر انہیں یقین ہو گیا تھا اس لئے ان کی زندگی نہایت پاک ہو گئی تھی۔ پس جنہوں نے الہٰی نشان دیکھے ہوں لازم ہے کہ ان کی زندگی پاک ہو اور پاک زندگیوں میں یہ بد نمونے دکھائی نہیں دے سکتے جو محرم کے دنوں میں آپ دیکھتے ہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ پاک دلوں سے دوسرے پاکوں کے خلاف نفرت اور بغض کے کلمے اس طرح نکلیں جس طرح پھوڑے سے پیپ نکلتی ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ پاک وجود صحت مند وجود ہوتا ہے، اس میں گندی پیپ کے پالے ہوئے پھوڑے نہیں ہوا کرتے۔ پس جب بھی صحابہؓ کے خلاف شیعوں کی مجالس میں سخت قسم کی ظالمانہ زبان استعمال کی جاتی ہے تو یہ دلوں کے پھوڑے ہیں جو سارا سال پکتے رہتے ہیں اور وہ پیپ اس وقت پھٹ کر اچھل اچھل کر باہر نکلتی ہے اور بہت ہی بد بودار مواد ہے جو باہر نکل کر گلیوں میں آتا ہے اور ساری فضا کو یہ بد بودار کر دیتا ہے۔ دوسری طرف مقابل کو دیکھیں۔ اگر وہ ان کے مقابلہ کرنے والے بھی رسول اﷲ ﷺکی سچائی کے نشان دیکھ کر اپنے دلوں کو پاک کر چکے ہوتے تو ایسے موقع پر استغفار سے کام لیتے۔ گند کا جواب گند سے نہ دیتے بلکہ ان کے لئے دعا گو ہو جاتے، ان پر زیادہ رحم اور شفقت کرتے، ان کو سمجھانے کے لئے سارا سال کارروائیاں کرتے اور دلائل کی دنیا میں ان کو گھسیٹ کر لاتے اور دلائل کے میدانوں میں یہ فیصلے کرتے۔ بجائے اس کے کہ تلوار کے میدان میں ایسے فیصلے کئے جائیں۔
پس ادھر بھی وہ پاک نمونے نہیں ہیں ادھر بھی وہ پاک نمونے نہیں ہیں اور امرِ واقعہ یہ ہے کہ اس زمانے میں اگر حضرت محمد رسول اﷲ ﷺسے سچا تعلق باندھنا ہے تو اس امام سے تعلق باندھے بغیر یہ سچا تعلق قائم نہیں ہو سکتا جوامام ان پیش گوئیوں کے مطابق آیا ہے جو محمد رسول اﷲ ﷺکو اﷲ تعالیٰ نے عطا فرمائیں وہ تعلق جو تیرہ سو سال میں تم کاٹ بیٹھے، وہ تعلق تیرہ سو سال کے بعد دوبارہ جوڑنے کے وقت آئے اور آسمان سے وہ رسی نیچے کی گئی جس رسی سے ہاتھ جدا ہو چکے تھے۔ اب ایک ہی راہ ہے کہ اس رسی کو دوبارہ مضبوطی سے پکڑ لو اور پھر حضرت محمد مصطفی ﷺکے دامن میں پناہ لے لو اس پناہ کے سوا اور کوئی پناہ نہیں ہے اور یہ پناہ امام وقت کے انکار کے ذریعہ میسر نہیں ہو سکتی۔ یہ پناہ صرف اس صورت میں نصیب ہو سکتی ہے اگر امام وقت کو تسلیم کرو، اس سے محبت کا رشتہ باندھو، کیونکہ یہی محبت کا رشتہ سلسلہ وار خدا تک پہنچے گا، محمد مصطفی ﷺکی سچی محبت تمہارے دلوں میں پیدا کرے گا۔ صحابہؓ کی سچی محبت کے سلیقے تمہیں سکھائے گا، اہل بیت کی سچی محبت کی روح تمہیں عطا کرے گا۔ یہ صاحبِ عرفان محبت ہو گی جس کے نتیجے میں پاک عمل پیدا ہوتا ہے۔ یہ ایسی محبت ہو گی جس کے نتیجہ میں دل پاک کئے جاتے ہیں اور پاک دل ایک دوسرے سے نفرت نہیں کیا کرتے۔ پاک دل آپس میں بٹ نہیں جایا کرتے بلکہ ایک ہاتھ پر جمع ہو جاتے ہیں اور امتِ محمدیہؐ کو دوبارہ ایک ہاتھ پر جمع کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے جس امام کو بھیجا ہے وہی ان روحانی رشتوں کا ضامن بن کر آیا ہے۔ وہی ان روحانی رشتوں کا اﷲ تعالیٰ کی طرف سے منادی بن کر بھیجا گیا ہے۔ تم اس کی ندا پر کان دھرو اور اطاعت اور محبت کے ساتھ اس کے حضور اپنے دلوں کو ان معنوں میں جھکا دو کہ جس طرف وہ بلاتا ہے وہ دل لپکتے ہوئے لبیک کہتے ہوئے اس طرف دوڑیں۔ میں خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ جس طرف وہ ان دلوں کو بلا رہا ہے یعنی تم سب کے دلوں کو وہ محمد رسول اﷲ ﷺکا رستہ ہے وہ خدا کا رستہ ہے اور کسی کا نہیں اس کے سوا اور کوئی رستہ نہیں۔ اسی کا نام صراط مستقیم ہے، اسی سے وحدت ملّی عطا ہوتی ہے۔ اسی سے تفرقے پھر وحدت کی لڑیوں میں پروئے جاتے ہیں۔
پس آپ سب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آواز پر لبیک کہیں اور اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دور کی باتیں ہیں تو ان نصیحتوں پر تو عمل کریں یا بتائیں کہ ان میں کیا نقص ہے۔ ان سے بہتر بات تو پیش کر کے دکھائیں۔ آپ تسلیم نہیں کرتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام وہی ہیں جو حکم عدل بن کر آئے تھے اور تمہارے درمیان انصاف سے فیصلہ کرنے والے تھے اب آپ کے فیصلے میں نے تمہیں سنا دئے ہیں۔ ان فیصلوں سے بہتر فیصلے کر کے تو دکھاؤ۔ بتاؤ تو سہی کہ اس سے زیادہ اور کون سی پاک اور مؤثر راہ ہو سکتی ہے جو مسلمانوں کے بٹے ہوئے دلوں کو پھر ایک ہاتھ پر اکٹھے کر سکتی ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لانا اب تمہارے اختیار کی یا ہاں یا نہ کی بات نہیں رہی۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ سچا امام جن رستوں کی طرف بلاتا ہے ان رستوں سے انکار خود کشی کے مترادف ہو جایا کرتا ہے۔ تو انکار کرو گے بھی تو باتیں وہی ماننی پڑیں گی جو حضرت مسیح موعودؑکہتے ہیں۔ ان باتوں سے بہتر باتیں تمہارے فرشتے بھی سوچ نہیں سکتے کیونکہ یہ خدا کا کلام ہے جو حضرت محمد رسول اﷲ ﷺکے ذریعہ آپؐ کی برکتوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دل پر نازل ہوا۔ جو وحدت کے رستے آپؑ نے بتائے ہیں ان کے سوا اور کوئی وحدت کا رستہ نہیں۔ پس اس رستے سے آؤ یا اس رستے سے آؤ، طوعاً آؤ یا کرھًا آؤ۔ تم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اگر بیعت نہیں کرنی تو باتوں کو تو لازمًا ماننا پڑے گا اور اگر نہیں مانو گے تو اسی طرح بٹے رہو گے۔ اسی طرح ایک دوسرے کے خلاف نفرتوں کی تعلیم دیتے رہو گے۔ نفرتوں کی منادی کرتے رہو گے اور ہر سال بجائے اس کے کہ محرم امت محمدیہؐ کو ایک کرنے کا عظیم الشان نظارہ دکھائے ہر سال یہ محرم آپ لوگوں کو اور زیادہ متفرق کرتا چلا جائے گا، آپ کے دلوں کو اور زیادہ پھاڑتا چلا جائے گا۔ اﷲ تعالیٰ آپ کو عقل دے، ہوش دے اور وہ سچی باتیں جو ایک صاف اور پاک دل کو صاف دکھائی دیتی ہیں۔ کسی دلیل کی حاجت نہیں رہتی۔ سچ تو خود اس طرح بولتا ہے کہ مومن کی پیشانی سے برستا ہے، سچ تو خود اس طرح بولتا ہے جیسے مشک خوشبو دیتا ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی باتوں میں وہ سچائی ہے جو مومن کی پیشانی کے نور کی طرح آپ کے چہرے سے برس رہی ہے۔ آپ کی باتوں میں وہ سچائی ہے جو مشک کی طرف خوشبو رکھتی ہے اور خود بخود اٹھتی ہے اور فضا کو مہکا دیتی ہے۔ پس ان باتوں پر غور سے کان دھرو اور ان کو اپنے دلوں میں جگہ دو۔ یہی ایک رستہ امت کو دوبارہ وحدت کی لڑیوں میں پرونے کا رستہ ہے۔ اس کے سوا اور کوئی رستہ نہیں۔ اﷲ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے۔آمین۔


مکمل تحریر >>